سنن النسائي - حدیث 3503

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب عِظَةِ الْإِمَامِ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَةَ عِنْدَ اللِّعَانِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ سُئِلْتُ عَنْ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ فَقُمْتُ مِنْ مَقَامِي إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا قَالَ نَعَمْ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ مِنَّا يَرَى عَلَى امْرَأَتِهِ فَاحِشَةً إِنْ تَكَلَّمَ فَأَمْرٌ عَظِيمٌ وَقَالَ عَمْرٌو أَتَى أَمْرًا عَظِيمًا وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ فَقَالَ إِنَّ الْأَمْرَ الَّذِي سَأَلْتُكَ ابْتُلِيتُ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3503

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل لعان کے وقت امام مرد اور عورت دونوں کو نصیحت کرے حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان میں تفریق کردی جائے گی؟ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہوں۔ میں اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھ کر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف چل پڑا۔ میں نے عرض کیا: اے ابو عبدالرحمن! کیا لعان کرنے والے خاوند بیوی میں مستقل جدائی کردے گی؟ آپ کہنے لگے: ضرور۔ سبحان اللہ! (یعنی تعجب ہے کہ تجھے اس مشہور حکم کا علم نہیں۔) سب سے پہلے جس شخص نے لعان کے بارے میں پوچھا تھا‘ وہ فلاں بن فلاں تھا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! فرمائیے ایک آدمی اپنی بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھتا ہے‘ اب اگر وہ شور مچاتا ہے تو یہ بھی بہت بے عزتی کی بات ہے‘ اور اگر وہ چپ رہتا ہے تو ایسی بات پر چپ رہنا بھی بہت مشکل ہے۔آپ نے اسے کئی جواب نہ دیا۔ اس کے کچھ دن بعد وہ پھر آیا اور کہنے لگا: جو مسئلہ میں نے آپ سے پوچھا تھا‘ میں واقعتا اس میں مبتلا ہوں‘ پھر اللہ تعالیٰ نے سورئہ نور میں یہ آیت اتار دیں: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ…} ’’وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر زنا کا الزام لگادیں… عورت پانچویں قسم یہ کھائے کہ اگر میرا خاوند سچا ہے تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو۔‘‘ آپ نے پہلے آدمی کو بلایا۔ اسے وعظ نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ وہ کہنے لگا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنایا ہے! میں نے (ذرہ بھر) جھوٹ نہیں بولا‘ پھر آپ نے عورت کو بلایا۔ اسے بھی وعظ نصیحت فرمائی۔ وہ بھی کہنے لگی: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنایا ہے! یقینا وہ جھوٹا ہے۔ آپ نے پہلے آدمی سے قسمیں لیں‘ ا س نے اللہ کے نام کی چار قسمیں کھائیں کہ یقینا میں سچا ہوں اور پانچویں قسم یہ کھائی کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ پھر دوسرے نمبر پر آپ نے عورت سے قسمیں لیں اس نے بھی اللہ تعالیٰ کے نام کی چار قسمیں کھائیں کہ یقینا یہ جھوٹا ہے اور پانچویں قسم یہ کھائی کہ اگر یہ سچا ہو تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا۔ اس کے بعد آپ نے ان میں مستقل جدائی ڈال دی۔
تشریح : (۱) ’’دنیا کا عذاب‘‘ یعنی اگر مرد جھوٹا ہو تو اس کے لیے الزام تراشی کی حد اسی(۸۰) کوڑے اور اگر عورت جھوٹی ہو‘ یعنی زنا میں ملوث ہو تو اسے زنا کی حد رجم جب کہ آخرت کا عذاب تو جہنم ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْھَا (۲) ’’جدائی ڈال دی‘‘ کیونکہ اس قدر الزام تراشی کے بعد ان کا بطور خاوند بیوی رہنا بے غیرتی ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ (۳) عالم دین سے مسئلہ پوچھا جائے اور اسے علم نہ ہو تو وہ بڑے عالم سے پوچھ کر بتائے۔ اور اس میں کوئی سبکی محسوس نہ کرے۔ ذاتی اجتہادات کی طرف بعد میں آئے۔ ایک ہی شخص کو ہر چیز کا علم نہیں ہوتا۔ عالم دین کی عزت وتوقیر کرنی چاہیے اور مسئلہ پوچھنے کے لیے خود سفر کرکے عالم کی خدمت میں حاضر ہو۔ راہ چلتے یا مسجد میں آتے جاتے گلی میں روک لینا عالم کی شان میں کوتاہی ہے‘ الا یہ کہ بہت زیادہ بے تکلفی ہو اور آتے جاتے دورانِ گفتگو کوئی مسئلہ پوچھ لیا جائے جیسا کہ استاد شاگرد اکٹھے جارہے ہوں تو کسی مسئلے پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ (۴) لعان سے پہلے قاضی کو چاہیے کہ پہلے انہیں وعظ ونصیحت کرے اور سمجھائے۔ (۱) ’’دنیا کا عذاب‘‘ یعنی اگر مرد جھوٹا ہو تو اس کے لیے الزام تراشی کی حد اسی(۸۰) کوڑے اور اگر عورت جھوٹی ہو‘ یعنی زنا میں ملوث ہو تو اسے زنا کی حد رجم جب کہ آخرت کا عذاب تو جہنم ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْھَا (۲) ’’جدائی ڈال دی‘‘ کیونکہ اس قدر الزام تراشی کے بعد ان کا بطور خاوند بیوی رہنا بے غیرتی ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ (۳) عالم دین سے مسئلہ پوچھا جائے اور اسے علم نہ ہو تو وہ بڑے عالم سے پوچھ کر بتائے۔ اور اس میں کوئی سبکی محسوس نہ کرے۔ ذاتی اجتہادات کی طرف بعد میں آئے۔ ایک ہی شخص کو ہر چیز کا علم نہیں ہوتا۔ عالم دین کی عزت وتوقیر کرنی چاہیے اور مسئلہ پوچھنے کے لیے خود سفر کرکے عالم کی خدمت میں حاضر ہو۔ راہ چلتے یا مسجد میں آتے جاتے گلی میں روک لینا عالم کی شان میں کوتاہی ہے‘ الا یہ کہ بہت زیادہ بے تکلفی ہو اور آتے جاتے دورانِ گفتگو کوئی مسئلہ پوچھ لیا جائے جیسا کہ استاد شاگرد اکٹھے جارہے ہوں تو کسی مسئلے پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ (۴) لعان سے پہلے قاضی کو چاہیے کہ پہلے انہیں وعظ ونصیحت کرے اور سمجھائے۔