كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب قَوْلِ الْإِمَامِ اللَّهُمَّ بَيِّنْ صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا قَالَ عَاصِمٌ مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا بِقَوْلِي فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعْرِ وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ بَيِّنْ فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ الشَّرَّ
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
امام کہہ سکتا ہے: اے اللہ! صورت حال واضح کردے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس لعان کا تذکرہ ہوا تو حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں کوئی بات کہی۔ جب وہ (گھر) واپس گئے تو ان کی قوم کا ایک آدمی ان کے پاس آکر شکایت کرنے لگا کہ میںنے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی پایا ہے۔ حضرت عاصم کہنے لگے: میں اس مصیبت میں اپنے اس قول کی وجہ سے مبتلا ہوا ہوں۔ وہ اس شخص کو لے کر رسول اللہﷺ کے پاس گئے اور آپ کو اس شخص کے بارے میں بتایا جس کے ساتھ اس نے اپنی بیوی کو دیکھا تھا۔ وہ شخص (شکایت کنندہ) زدہ رنگ کا‘ تھوڑے گوشت والا‘ سفید بالوں والا تھا۔ اور جس شخص کے بارے میں اس کا دعویٰ تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے‘ وہ شخص گندمی رنگ کا‘ موٹی پنڈلیوں والا اور زیادہ گوشت والا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! صورت حال واضح فرمادینا۔‘‘ چنانچہ اس عورت نے اس شخص کے مشابہ بچہ جنا جس کے بارے میں اس کے خاوند نے کہا تھاکہ میں نے اسے اپنی بیوی کے ساتھ (حالت زنا میں) دیکھا ہے۔ خیر! رسول اللہﷺ نے ان کے درمیان لعان کروادیا ہے۔ مجلس میں موجود ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے کہا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ’’اگر میں کسی کو گواہوں کے بغیر رجم کرتا ہوں تو اس عورت کو کرتا۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں‘ وہ ایک دوسری عورت تھی جو مسلمان ہونے کے باوجود بدکاری میں مشہور تھی (مگر گواہ نہیں ملتے تھے)۔
تشریح :
(۱) ’’کوئی بات کہی‘‘ فخر یہ بات کہ اگر میرے گھر ایسا مسئلہ ہوتا تو میں لعان تک نوبت ہی نہ آنے دیتا بلکہ مرد کو موقع پر ہی ماردیتا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کی تردید کی ہے۔ انہوں نے بالجزم کہا ہے کہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے قول سے مراد وہی سوال ہے جو عویمر نے انہیں رسول اللہﷺسے پوچھنے کے لیے کہا تھا‘ یعنی یہ بات ]أَرَأَیْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلاً، أَیَقْتُلُہُ فَتَقْتُلُونَہُ أَمْ کَیْفَ یَفْعَلُ؟[وہ فرماتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ ایک عویمر کا جو عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا مسئلہ لاتے تھے اور دوسرا ہلال بن امیہ کا جو سعد بن عبادہ کے پاس اپنا مسئلہ لاتے تھے اور کہا تھا کہ ’’اگر میں اسے اس حالت میں دیکھ لوں تو فوراً تلوار سے اسے قتل کردوں‘‘ وہ سعد بن عبادہ تھے اور ان کا یہ قول ہلال بن امیہ والے واقعہ میںآتا ہے جو عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ اور عاصم رضی اللہ عنہ کا قول عویمر والے واقعہ میں آتا ہے جو قاسم بن محمد‘ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں لہٰذا یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ عاصم کا قول وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔ اس لحاظ سے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے قول ]مَا ابْتُلِیَتُ بِھٰذَا اِلاَّ بِقَوْلِیی[کا مطلب دیگر روایات کی روشنی میں یہ ہوگا کہ اس مسئلے میں اس لیے مبتلا ہوا ہوں کہ میں لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہﷺیہ سوال کربیٹھا جیسا کہ مقاتل بن حیان کی ابن ابی حاتم سے مرسل روایت کے الفاظ ہیں: ]فَقَالَ عَاصِمٌ: اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، ھٰذَا، وَاللّٰہِ بِسُئوَالي عَنْ ھٰذَا الْأمْرِ بَیْنَ النَّاسِ، فَابْتُلِیَتُ بِہِ۔[تفصیل کے لیے دیکھے: (فتح الباری: ۹/۴۵۴، ۴۵۵) (۶) ’’موٹی پنڈلیوں والا‘‘ سابقہ حدیث میں باریک پنڈلیوں والا ہے۔ ممکن ہے اوپر سے موٹی ہوں نیچے سے پتلی یا راوی کو غلطی لگ گئی ہو۔ (۵) ’’لعان کروایا‘‘ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید لعان بچے کی پیدائش کے بعد ہوا‘ لیکن یہ تأثر صحیح نہیں۔ لعان پہلے ہوچکا تھا‘ اس لیے ترجمہ میں لفظ ’’خیر‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ یہ تأثر زائل ہوجائے۔ باقی روایات میں صراحت ہے کہ لعان پہلے ہوگیا تھا۔
(۱) ’’کوئی بات کہی‘‘ فخر یہ بات کہ اگر میرے گھر ایسا مسئلہ ہوتا تو میں لعان تک نوبت ہی نہ آنے دیتا بلکہ مرد کو موقع پر ہی ماردیتا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کی تردید کی ہے۔ انہوں نے بالجزم کہا ہے کہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے قول سے مراد وہی سوال ہے جو عویمر نے انہیں رسول اللہﷺسے پوچھنے کے لیے کہا تھا‘ یعنی یہ بات ]أَرَأَیْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلاً، أَیَقْتُلُہُ فَتَقْتُلُونَہُ أَمْ کَیْفَ یَفْعَلُ؟[وہ فرماتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ ایک عویمر کا جو عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا مسئلہ لاتے تھے اور دوسرا ہلال بن امیہ کا جو سعد بن عبادہ کے پاس اپنا مسئلہ لاتے تھے اور کہا تھا کہ ’’اگر میں اسے اس حالت میں دیکھ لوں تو فوراً تلوار سے اسے قتل کردوں‘‘ وہ سعد بن عبادہ تھے اور ان کا یہ قول ہلال بن امیہ والے واقعہ میںآتا ہے جو عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ اور عاصم رضی اللہ عنہ کا قول عویمر والے واقعہ میں آتا ہے جو قاسم بن محمد‘ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں لہٰذا یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ عاصم کا قول وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔ اس لحاظ سے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے قول ]مَا ابْتُلِیَتُ بِھٰذَا اِلاَّ بِقَوْلِیی[کا مطلب دیگر روایات کی روشنی میں یہ ہوگا کہ اس مسئلے میں اس لیے مبتلا ہوا ہوں کہ میں لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہﷺیہ سوال کربیٹھا جیسا کہ مقاتل بن حیان کی ابن ابی حاتم سے مرسل روایت کے الفاظ ہیں: ]فَقَالَ عَاصِمٌ: اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، ھٰذَا، وَاللّٰہِ بِسُئوَالي عَنْ ھٰذَا الْأمْرِ بَیْنَ النَّاسِ، فَابْتُلِیَتُ بِہِ۔[تفصیل کے لیے دیکھے: (فتح الباری: ۹/۴۵۴، ۴۵۵) (۶) ’’موٹی پنڈلیوں والا‘‘ سابقہ حدیث میں باریک پنڈلیوں والا ہے۔ ممکن ہے اوپر سے موٹی ہوں نیچے سے پتلی یا راوی کو غلطی لگ گئی ہو۔ (۵) ’’لعان کروایا‘‘ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید لعان بچے کی پیدائش کے بعد ہوا‘ لیکن یہ تأثر صحیح نہیں۔ لعان پہلے ہوچکا تھا‘ اس لیے ترجمہ میں لفظ ’’خیر‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ یہ تأثر زائل ہوجائے۔ باقی روایات میں صراحت ہے کہ لعان پہلے ہوگیا تھا۔