سنن النسائي - حدیث 3497

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب اللِّعَانِ بِالْحَبَلِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْعَجْلَانِيِّ وَامْرَأَتِهِ وَكَانَتْ حُبْلَى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3497

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل عورت کو ناجائز حمل ہونے کی صورت میں بھی لعان ہوسکتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے (عویمر) عجلانی اور ا س کی بیوی کے درمیان لعان کروایا جب کہ وہ (بیوی) حاملہ تھی۔
تشریح : (۱) عورت کو حمل ٹھہر جائے‘ مگر خاوند کو یقین ہو کہ یہ حمل ہو کہ یہ حمل زنا سے ہے‘ میرا نہیں‘ تو وہ عدالت میں جا کردعویٰ کرسکتا ہے۔ عدالت عورت کو بھی بلائے گی اور ان کے درمیان لعان کروائے گی۔ گویا آنکھ سے کسی مرد کے ساتھ دیکھنا ضروری نہیں۔ زنا کا یقین ضروری ہے۔ (۲) لعان لعنت سے ہے۔ چونکہ قسموں کے دوران میں آدمی جھوٹے پر لعنت ڈالتا ہے‘ اس لیے اس کارروائی کو لعان کہا جاتا ہے۔ (۳) لعان سے حمل کی نفی ہوجائے گی اور بیٹا ماں کی طرف منسوب ہوگا جیسا کہ حدیث: ۳۵۰۷ میں آرہا ہے۔ (۱) عورت کو حمل ٹھہر جائے‘ مگر خاوند کو یقین ہو کہ یہ حمل ہو کہ یہ حمل زنا سے ہے‘ میرا نہیں‘ تو وہ عدالت میں جا کردعویٰ کرسکتا ہے۔ عدالت عورت کو بھی بلائے گی اور ان کے درمیان لعان کروائے گی۔ گویا آنکھ سے کسی مرد کے ساتھ دیکھنا ضروری نہیں۔ زنا کا یقین ضروری ہے۔ (۲) لعان لعنت سے ہے۔ چونکہ قسموں کے دوران میں آدمی جھوٹے پر لعنت ڈالتا ہے‘ اس لیے اس کارروائی کو لعان کہا جاتا ہے۔ (۳) لعان سے حمل کی نفی ہوجائے گی اور بیٹا ماں کی طرف منسوب ہوگا جیسا کہ حدیث: ۳۵۰۷ میں آرہا ہے۔