سنن النسائي - حدیث 3495

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب مَا جَاءَ فِي الْخَلْعِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ أَنْبَأَنَا هَارُونُ بْنُ رِئَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ تَحْتِي امْرَأَةً لَا تَرُدُّ يَدَ لَامِسٍ قَالَ طَلِّقْهَا قَالَ إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنْهَا قَالَ فَأَمْسِكْهَا قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ مُرْسَلٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3495

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل عورت کا خاوند سے خلع لینا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے نکاح میں ایک عورت ہے جو کسی چھیڑ چھاڑ کرنے والے کے ہاتھ کو نہیں روکتی۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے طلاق دے دو۔‘‘ وہ کہنے لگا: میں اس سے جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر رکھے رکھے‘‘ ابو عبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں: یہ خطا ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے۔
تشریح : (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کے کلام کا مقصد یہ ہے کہ اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے متصل بیان کرنا خطا ہے۔ صحیح اس کا مرسل‘ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے کے بغیر ہوتا ہے۔ لیکن پیچھے حدیث: ۳۲۳۱ میں بھی بیان ہوچکا ہے کہ یہ حدیث متصل صحیح ہے۔ ایک راوی کے مرسل بیان کرنے سے متصل بیان کرنے والوں کی روایت غلط نہیں ہوجاتی جبکہ متصل بیان کرنے والے ثقہ راوی ہوں۔ ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ اس قسم کی مخالفت مضر نہیں‘ لہٰذا یہ موصولاً بھی مروی ہے اور مرسلاً بھی۔ (۲) مندرجہ بالا دونوں روایات کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے دیکھیے: حدیث:۳۲۳۱۔ (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کے کلام کا مقصد یہ ہے کہ اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے متصل بیان کرنا خطا ہے۔ صحیح اس کا مرسل‘ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے کے بغیر ہوتا ہے۔ لیکن پیچھے حدیث: ۳۲۳۱ میں بھی بیان ہوچکا ہے کہ یہ حدیث متصل صحیح ہے۔ ایک راوی کے مرسل بیان کرنے سے متصل بیان کرنے والوں کی روایت غلط نہیں ہوجاتی جبکہ متصل بیان کرنے والے ثقہ راوی ہوں۔ ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ اس قسم کی مخالفت مضر نہیں‘ لہٰذا یہ موصولاً بھی مروی ہے اور مرسلاً بھی۔ (۲) مندرجہ بالا دونوں روایات کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے دیکھیے: حدیث:۳۲۳۱۔