سنن النسائي - حدیث 3485

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب الْإِيلَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَى قَالَ تَذَاكَرْنَا الشَّهْرَ عِنْدَهُ فَقَالَ بَعْضُنَا ثَلَاثِينَ وَقَالَ بَعْضُنَا تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَقَالَ أَبُو الضُّحَى حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ أَصْبَحْنَا يَوْمًا وَنِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِينَ عِنْدَ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَهْلُهَا فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ مَلْآنٌ مِنْ النَّاسِ قَالَ فَجَاءَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَصَعِدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي عُلِّيَّةٍ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ فَرَجَعَ فَنَادَى بِلَالًا فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ فَقَالَ لَا وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ ثُمَّ نَزَلَ فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3485

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل ایلا کے مسائل حضرت ابوالضحیٰ کے شاگردوں نے ان کے پاس ’’مہینے‘‘ کے بارے میں بحث کی۔ کسی نے کہا: (مہینہ) تیس دن کا ہوتا ہے‘ کسی نے کہا: انتیس دن کا ہوتا ہے۔ حضرت ابوالضحیٰ کہنے لگے: ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک دن صبح ہوئی تو نبیﷺ کی ازواج مطہرات رورہی تھیں۔ ہر زوجئہ مطہرہ کے پاس ان کے گھر والے بیٹھے تھے۔ میںمسجد میں داخل ہوا تو وہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے۔وہ نبیﷺ کے پاس جانے کے لیے اوپر چڑھے کیونکہ رسول اللہﷺ اپنے چوبارے میں تھے۔ انہوں نے آپ کو سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہ دیا‘ پھر سلام کہا لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر سلام کہا‘ پرھ کسی نے جواب نہ دیا۔ وہ واپس لوٹ آئے تو بلال رضی اللہ عنہ نے انہیں پکارا‘ چنانچہ وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں لیکن میں نے ایک مہینہ دور رہنے کی قسم کھالی ہے۔‘‘ آپ انتیس دن اسی طرح رہے۔ پھر اترے اور ا پنی بیویوں کے ہاں تشریف لے گئے۔
تشریح : (۱) ’’ایلا‘‘ قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد ہے: بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالینا۔ اگر کبھی خاوند بیوی سے ناراض ہوجائے اور ایسی قسم کھالے تو اس پر کاربندرہ سکتا ہے لیکن چار ماہ تک۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ مدت کی قسم کھائے گا تو پھر چار ماہ گزرنے پر اسے یا تو قسم ختم کرکے جماع کرنا ہوگا اور قسم کا کفارہ دینا ہوگا یا پھر طلاق دینی ہوگی۔ اگر وہ دونوں باتو سے انکار کرے تو حاکم وقت (قاضی وغیرہ) اپنے اختیارات کے تحت عورت پر طلاق لاگو کردے گا۔ اور وہ عورت خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ رسول اللہﷺ نے قسم ہی صرف ایک ماہ کی کھائی تھی۔ اور قسم پوری فرمادی۔ (۲) ’’رورہی تھیں‘‘ انہیں یہ خیال ہوگیا تھا کہ شاید اسی قسم کھانے سے طلاق پڑجاتی ہے۔ یا ممکن ہے آپ کی ناراضی اور جدائی کی بنا پر رورہی ہوں۔ (۳) ’’کسی نے جواب نہدیا‘‘ یعنی اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ سلام کا جواب آہستہ دے لیا ہو گا۔ (۴) ’’انتیس دن‘‘ کیونکہ مہینہ انتیس کا بھی ہوسکتا ہے‘ تیس کا بھی۔ شریعت نے انتیس دن کو پورا مہینہ قراردیا ہے‘ لہٰذا اگر قسم ایک ماہ کی ہو تو انتیس دن بعد وہ قسم پوری ہوجائے گی‘ چاہے کسی بھی چیز کے بارے میں ہو۔ (۵) صحابہ کرامf نبی اکرمﷺ کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ہر چھوٹی بڑی پریشانی میں اپنا ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے مسابقت کرتے تھے۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَرَضُوْعَنْہُ۔ (۶) ضرورت کے تحت ایک سے زائد منزلہ عمارت بنائی جاسکتی ہے لیکن اس کی بناوٹ ایسی ہو کہ پڑوسیوں کے گھروں میں نظر نہ پڑے تاکہ انہیں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ (۷) قسم کھانے والے کے بارے میں اگر یہ شبہ ہو کہ یہ بھول گیا ہے تو اسے یاد کرادینا چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے۔ (۱) ’’ایلا‘‘ قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد ہے: بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالینا۔ اگر کبھی خاوند بیوی سے ناراض ہوجائے اور ایسی قسم کھالے تو اس پر کاربندرہ سکتا ہے لیکن چار ماہ تک۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ مدت کی قسم کھائے گا تو پھر چار ماہ گزرنے پر اسے یا تو قسم ختم کرکے جماع کرنا ہوگا اور قسم کا کفارہ دینا ہوگا یا پھر طلاق دینی ہوگی۔ اگر وہ دونوں باتو سے انکار کرے تو حاکم وقت (قاضی وغیرہ) اپنے اختیارات کے تحت عورت پر طلاق لاگو کردے گا۔ اور وہ عورت خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ رسول اللہﷺ نے قسم ہی صرف ایک ماہ کی کھائی تھی۔ اور قسم پوری فرمادی۔ (۲) ’’رورہی تھیں‘‘ انہیں یہ خیال ہوگیا تھا کہ شاید اسی قسم کھانے سے طلاق پڑجاتی ہے۔ یا ممکن ہے آپ کی ناراضی اور جدائی کی بنا پر رورہی ہوں۔ (۳) ’’کسی نے جواب نہدیا‘‘ یعنی اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ سلام کا جواب آہستہ دے لیا ہو گا۔ (۴) ’’انتیس دن‘‘ کیونکہ مہینہ انتیس کا بھی ہوسکتا ہے‘ تیس کا بھی۔ شریعت نے انتیس دن کو پورا مہینہ قراردیا ہے‘ لہٰذا اگر قسم ایک ماہ کی ہو تو انتیس دن بعد وہ قسم پوری ہوجائے گی‘ چاہے کسی بھی چیز کے بارے میں ہو۔ (۵) صحابہ کرامf نبی اکرمﷺ کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ہر چھوٹی بڑی پریشانی میں اپنا ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے مسابقت کرتے تھے۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَرَضُوْعَنْہُ۔ (۶) ضرورت کے تحت ایک سے زائد منزلہ عمارت بنائی جاسکتی ہے لیکن اس کی بناوٹ ایسی ہو کہ پڑوسیوں کے گھروں میں نظر نہ پڑے تاکہ انہیں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ (۷) قسم کھانے والے کے بارے میں اگر یہ شبہ ہو کہ یہ بھول گیا ہے تو اسے یاد کرادینا چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے۔