سنن النسائي - حدیث 3477

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب خِيَارِ الْأَمَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ رَبِيعَةَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ إِحْدَى السُّنَنِ أَنَّهَا أُعْتِقَتْ فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً فِيهَا لَحْمٌ فَقَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3477

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل لونڈی کو (آزادی کے بعد نکاح ختم کرنے) کا اختیار ہے نبیﷺ کی زوجئہ محترمہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین شرعی احکام جاری ہوئے: ایک یہ کہ وہ آزاد ہوئی تو اسے اپنے خاوند کی بابت اختیار دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حق ولا اسے حاصل ہوگا جو آزاد کرے۔‘‘ تیسرا یہ کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے تو ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا لیکن آپ کو روٹی کے ساتھ گھر ولا سالن دیا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تو ہنڈیا میں گوشت پکتا ہوا دیکھا تھا۔‘‘ گھر والوں نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! لیکن وہ تو گوشت تھا جو بریرہ پر صدقہ کیا گیا تھا اور آپ صدقہ نہیںکھاتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ اس کے لیے صدقہ تھا (لیکن جب اس نے ہمیں تحفہ بھیج دیا تو یہ) ہمارے لیے ہدیہ ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’اختیار دیا گیا‘‘ کیونکہ ان کا خاوند ’’مغیث‘‘ ابھی غلام تھا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے نکاح ختم کردیا تھا۔ معلوم ہوا عورت کے آزاد ہونے سے طلاق واقع ہوگی نہ فسخ نکا ہوگا بلکہ اختیار ملے گا۔ (۲) ’’حق ولا‘‘ سے مراد ہو حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد شدہ غلام پر ہوتا ہے کہ اسے اس کا مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اور یہ آزاد شدہ غلام فوت ہوجائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا اس کا وارث بھی بنے گا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزادی کے لیے حضرت عائشہؓ سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں یک مشت خرید کر آماد کردیتی ہوں۔ مالک بیچنے پر تو راضی ہوگئے مگر ’’حق ولا‘‘ اپنے لیے مانگنے لگے‘ حالانکہ یہ حق تو اسی کا ہے جو غلام کو لوجہ اللہ آزاد کرے۔ (۳) ’’ہدیہ ہے‘‘ اس سے یہ اصول سمجھ میں آیا کہ جو چیز بذات خود پلید اور حرام نہیں‘ ا س کی حیثیت بدلتی رہتی ہے‘ مثلاً: رشوت یا سود کا پیسہ اس شخص کے لیے حرام ہے جو رشوت یا سود لے رہا ہے‘ لیکن اگر رشوت یا سود لینے والا وہ رقم آگے کسی کو بطور اجرت یا قیمت دے تو لینے والے کے لیے جائز ہوگی‘ حرام نہیں ہوگی کیونکہ رقم بذات خود پلید یا حرام نہیں بلکہ اس کی حیثیت اسے حلال یا حرام بناتی ہے۔ زکاۃ کی رقم مال دار کے لیحے حرام مگر فقیر کے لیے حلال ہے۔ یہ اصول بہت اہم ہے۔ (۴) میاں بیوی غلام ہوں تو کسی ایک سے مکاتبت کر کے اسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ کسی ایک کو آگے بیچا جاسکتا ہے۔ (۵) اگر کسی غلط اور غیر شرعی کام کاج لوگ ارتکاب کررہے ہوں تو علماء کو مسئلے کی وضاحت کرنی چاہیے اور اس کے متعلق شرعی احکام نمایاں کرنے چاہئیں‘ نیز جس شرعی کام اور رسم کا وہ مستقبل میں ارتکاب کرنے والے ہوں اس کے بارے میں بروقت اپنے خطبے میں وضاحت کردینی چاہیے۔ (۶) نیک بیوی ہر معاملے میں اپنے خاوند کی خیر خواہ ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ کو گوشت کا سالن نہ دیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے‘ ورنہ آپ کو علم نہ تھا کیونکہ آپ عالم غیب نہ تھے۔ (۷) صدقے اور ہدیے میں فرق ہے۔ (۸) آزاد کرنے والا آزاد کردہ سے تحفہ قبول کرسکتا ہے۔ اس سے آزاد کرنے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (۱) ’’اختیار دیا گیا‘‘ کیونکہ ان کا خاوند ’’مغیث‘‘ ابھی غلام تھا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے نکاح ختم کردیا تھا۔ معلوم ہوا عورت کے آزاد ہونے سے طلاق واقع ہوگی نہ فسخ نکا ہوگا بلکہ اختیار ملے گا۔ (۲) ’’حق ولا‘‘ سے مراد ہو حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد شدہ غلام پر ہوتا ہے کہ اسے اس کا مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اور یہ آزاد شدہ غلام فوت ہوجائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا اس کا وارث بھی بنے گا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزادی کے لیے حضرت عائشہؓ سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں یک مشت خرید کر آماد کردیتی ہوں۔ مالک بیچنے پر تو راضی ہوگئے مگر ’’حق ولا‘‘ اپنے لیے مانگنے لگے‘ حالانکہ یہ حق تو اسی کا ہے جو غلام کو لوجہ اللہ آزاد کرے۔ (۳) ’’ہدیہ ہے‘‘ اس سے یہ اصول سمجھ میں آیا کہ جو چیز بذات خود پلید اور حرام نہیں‘ ا س کی حیثیت بدلتی رہتی ہے‘ مثلاً: رشوت یا سود کا پیسہ اس شخص کے لیے حرام ہے جو رشوت یا سود لے رہا ہے‘ لیکن اگر رشوت یا سود لینے والا وہ رقم آگے کسی کو بطور اجرت یا قیمت دے تو لینے والے کے لیے جائز ہوگی‘ حرام نہیں ہوگی کیونکہ رقم بذات خود پلید یا حرام نہیں بلکہ اس کی حیثیت اسے حلال یا حرام بناتی ہے۔ زکاۃ کی رقم مال دار کے لیحے حرام مگر فقیر کے لیے حلال ہے۔ یہ اصول بہت اہم ہے۔ (۴) میاں بیوی غلام ہوں تو کسی ایک سے مکاتبت کر کے اسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ کسی ایک کو آگے بیچا جاسکتا ہے۔ (۵) اگر کسی غلط اور غیر شرعی کام کاج لوگ ارتکاب کررہے ہوں تو علماء کو مسئلے کی وضاحت کرنی چاہیے اور اس کے متعلق شرعی احکام نمایاں کرنے چاہئیں‘ نیز جس شرعی کام اور رسم کا وہ مستقبل میں ارتکاب کرنے والے ہوں اس کے بارے میں بروقت اپنے خطبے میں وضاحت کردینی چاہیے۔ (۶) نیک بیوی ہر معاملے میں اپنے خاوند کی خیر خواہ ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ کو گوشت کا سالن نہ دیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے‘ ورنہ آپ کو علم نہ تھا کیونکہ آپ عالم غیب نہ تھے۔ (۷) صدقے اور ہدیے میں فرق ہے۔ (۸) آزاد کرنے والا آزاد کردہ سے تحفہ قبول کرسکتا ہے۔ اس سے آزاد کرنے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔