سنن النسائي - حدیث 3476

كِتَابُ الطَّلَاقِ خِيَارُ الْمَمْلُوكَيْنِ يُعْتَقَانِ ضعيف أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ مَوْهَبٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ كَانَ لِعَائِشَةَ غُلَامٌ وَجَارِيَةٌ قَالَتْ فَأَرَدْتُ أَنْ أُعْتِقَهُمَا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْدَئِي بِالْغُلَامِ قَبْلَ الْجَارِيَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3476

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل غلام خاوند بیوی آزاد ہوں تو اختیار کسے ہوگا؟ حضرت قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی تھے (جو آپس میں میاں بیوی تھے)۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: میں نے انہیں آزاد کرنے کا ارادہ کیا۔ میں نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ’’غلام کو آزاد کرنا‘ لونڈی کو بعد میں۔‘‘
تشریح : (۱) آزاد ہونے کی حیثیت سے بڑھ جاتی ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شادی شدہ لونڈی آزاد ہو اور اس کا خاوند غلام ہو تو آزادی کے بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ غلام کے نکاح میں رہے یا نہ رہے۔ البتہ اگر خاوند آزاد ہے تو پھر عورت کو آزادی کے بعد یہ حق نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے بلند نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے آپ نے خاوند کو پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ عورت نکاح ختم نہ کرسکے کیونکہ نکاح کا ٹوٹنا بہت سے مفاسد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جب دونوں کا درجہ ایک جیسا ہے تو نکاح قائم رہنے ہی میں عافیت ہے۔ احناف ہر حالت میں آزاد ہونے والی بیوی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار دیتے ہیں لیکن ان کا مسلک واضح طور پر رسول اللہﷺ کے اس مذکورہ فرمان کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مرد کی فضیلت کی وجہ سے اسے پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا لیکن یہ تاویل کمزور ہے۔ دلائل کی رو سے پہلا موقف قوی ہے۔ (۲) چونکہ خاوند کو تو ہر حال میں مال میں طلاق کا اختیار ہے‘ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام‘ لہٰذا آزاد ہونے سے اسے کوئی الگ اختیار نہیں ملتا۔ (۳) عورت اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آزاد کروں یا نہ کروں بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ پہلے کسے آزاد کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ البتہ خاوند سے صلاح مشورہ افضل ہے۔ اس سے باہمی اعتماد اور مودت بڑھتی ہے اور شیطان کو دخل اندازی کاموقع نہیں ملتا۔ (۱) آزاد ہونے کی حیثیت سے بڑھ جاتی ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شادی شدہ لونڈی آزاد ہو اور اس کا خاوند غلام ہو تو آزادی کے بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ غلام کے نکاح میں رہے یا نہ رہے۔ البتہ اگر خاوند آزاد ہے تو پھر عورت کو آزادی کے بعد یہ حق نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے بلند نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے آپ نے خاوند کو پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ عورت نکاح ختم نہ کرسکے کیونکہ نکاح کا ٹوٹنا بہت سے مفاسد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جب دونوں کا درجہ ایک جیسا ہے تو نکاح قائم رہنے ہی میں عافیت ہے۔ احناف ہر حالت میں آزاد ہونے والی بیوی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار دیتے ہیں لیکن ان کا مسلک واضح طور پر رسول اللہﷺ کے اس مذکورہ فرمان کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مرد کی فضیلت کی وجہ سے اسے پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا لیکن یہ تاویل کمزور ہے۔ دلائل کی رو سے پہلا موقف قوی ہے۔ (۲) چونکہ خاوند کو تو ہر حال میں مال میں طلاق کا اختیار ہے‘ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام‘ لہٰذا آزاد ہونے سے اسے کوئی الگ اختیار نہیں ملتا۔ (۳) عورت اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آزاد کروں یا نہ کروں بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ پہلے کسے آزاد کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ البتہ خاوند سے صلاح مشورہ افضل ہے۔ اس سے باہمی اعتماد اور مودت بڑھتی ہے اور شیطان کو دخل اندازی کاموقع نہیں ملتا۔