سنن النسائي - حدیث 3468

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب الْإِبَانَةِ وَالْإِفْصَاحِ بِالْكَلِمَةِ الْمَلْفُوظِ بِهَا إِذَا قُصِدَ بِهَا لِمَا لَا يَحْتَمِلُ مَعْنَاهَا لَمْ تُوجِبْ شَيْئًا صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنِي شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ انْظُرُوا كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ إِنَّهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3468

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل جب کوئی شخص ایک واضح کلمہ بول کر ایسے معنی مراد لے جن کا وہ احتمال نہیں رکھتا‘ اس سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوگا اور وہ بے فائدہ ہوگا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دیکھو! اللہ تعالیٰ قریش کے گالی گلوچ اور لعن طعن کو مجھ سے کیسے دور رکھتا ہے؟ وہ مذمم کو برا کہتے ہیں اور مذمم کو لعنت کرتے ہیں جب کہ میں تو محمد ہوں۔‘‘ (ﷺ)
تشریح : قریش مکہ جب اپنے منصوبوں میں ناکام ہوتے تو جلتے بھنتے ہوئے نبی اکرمﷺ کو براکہنے لگتے لیکن وہ طعن کے وقت محمدﷺ کے بجائے مذمم کا لفظ بولتے کیونکہ محمد کے معنی تو ہیں وہ شخص جس کی سب تعریفیں کریں۔ اگر وہ آپ کو محمد کہہ کر گالی گلوچ کرتے تو یہ اجتماع نقیصین تھا۔ ویسے بھی وہ آپ کو اتنے اچھے نام کے ساتھ پکارنا نہیں چاہتے تھے‘ لہٰذا وہ محمد کے لفظ کو مذمم سے بدل دیتے اور گالیاں دیتے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو گالی گلوچ سے بچالیا۔ امام رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی لفظ کے ایسے معنی مراد نہیں لیے جاسکتے جس سے وہ معنی کسی بھی لحاظ سے سمجھ میں نہ آتے ہوں‘ جیسے مذمم کے معنی کسی بھی صورت میں محمد نہیں ہوسکتے۔ یہاں نہایت کفایت نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی ایسا لفظ بول کر طلاق مراد نہیں لی جاسکتی جو کسی لحاظ سے بھی طلاق کے معنی نہ دیتا ہو‘ خواہ نیت طلاق ہی کی ہو‘ مثلاً: کوئی کہے: ’’میں نے تجھے انعام دیا‘‘ اور طلاق مراد لے تو یہ ممکن نہیں۔ قریش مکہ جب اپنے منصوبوں میں ناکام ہوتے تو جلتے بھنتے ہوئے نبی اکرمﷺ کو براکہنے لگتے لیکن وہ طعن کے وقت محمدﷺ کے بجائے مذمم کا لفظ بولتے کیونکہ محمد کے معنی تو ہیں وہ شخص جس کی سب تعریفیں کریں۔ اگر وہ آپ کو محمد کہہ کر گالی گلوچ کرتے تو یہ اجتماع نقیصین تھا۔ ویسے بھی وہ آپ کو اتنے اچھے نام کے ساتھ پکارنا نہیں چاہتے تھے‘ لہٰذا وہ محمد کے لفظ کو مذمم سے بدل دیتے اور گالیاں دیتے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو گالی گلوچ سے بچالیا۔ امام رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی لفظ کے ایسے معنی مراد نہیں لیے جاسکتے جس سے وہ معنی کسی بھی لحاظ سے سمجھ میں نہ آتے ہوں‘ جیسے مذمم کے معنی کسی بھی صورت میں محمد نہیں ہوسکتے۔ یہاں نہایت کفایت نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی ایسا لفظ بول کر طلاق مراد نہیں لی جاسکتی جو کسی لحاظ سے بھی طلاق کے معنی نہ دیتا ہو‘ خواہ نیت طلاق ہی کی ہو‘ مثلاً: کوئی کہے: ’’میں نے تجھے انعام دیا‘‘ اور طلاق مراد لے تو یہ ممکن نہیں۔