سنن النسائي - حدیث 3466

كِتَابُ الطَّلَاقِ الطَّلَاقُ بِالْإِشَارَةِ الْمَفْهُومَةِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ قَالَ حَدَّثَنَا بَهْزٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَارٌ فَارِسِيٌّ طَيِّبُ الْمَرَقَةِ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعِنْدَهُ عَائِشَةُ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ تَعَالَ وَأَوْمَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ أَيْ وَهَذِهِ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الْآخَرُ هَكَذَا بِيَدِهِ أَنْ لَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3466

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل واضح اشارے سے بھی طلاق ہوسکتی ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہﷺ کا ایک فارسی پڑوس تھا جو شوربہ بہترین بناتا تھا۔ ایک دن وہ رسول ا للہﷺ کے پاس آیا جب کہ آپ کے پاس حضرت عائشہؓ بھی تھیں۔ اس نے آپ کے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آئیے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ بھی آئے گی تو اس نے ہاتھ سے اشارہ نہیں کیا کہ نہیں۔ دو تین دفعہ ایسے ہی ہوا۔
تشریح : (۱) گونگے بھی دنیا میں بستے ہیں۔ ان کیا بھی شادیاں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی طلاق کی ضرورت پڑسکتی ہے اور وہ عموماً اشارے ہی سے بات کرتے ہیں‘ لہٰذا لازمی بات ہے کہ اشارہ معتبر ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اشارہ واضح ہونا چاہیے جس سے مقصود صاف سمجھ میں آئے۔ عام آدمی بھی اشاروں سے باتیں کرلیتے ہیں‘ لہٰذا اشارہ معتبر ہوگا‘ خواہ گونگا کرے یا کوئی دوسرا فرد بشرطیکہ اشارہ واضح ہو۔ (۲) رسول اللہﷺ کا حضرت عائشہؓ کو ساتھ لے جانے پر اصرار شاید اس وجہ سے تھا کہ حضرت عائشہؓ کو بھی بھوک لگی تھی۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ کھانے میں اپنے آپ کو ان پر ترجیح دیں۔ یہ مکارم اخلاق کی علامت ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے: ’’ساتھی ]وَشِبْعُ الْفَتٰی لُؤْمٌ اِذا جَاعَ صَاحِبُہُ[ ’’ساتھی بھوکا ہو تو اپنا پیٹ بھرا ہونا قابل ملامت ہے۔‘‘ اور فارسی کا انکار شاید اس وجہ سے تھا کہ شوربہ صرف آپ کی کفایت کرسکتاتھا۔ واللہ ا علم۔ (۱) گونگے بھی دنیا میں بستے ہیں۔ ان کیا بھی شادیاں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی طلاق کی ضرورت پڑسکتی ہے اور وہ عموماً اشارے ہی سے بات کرتے ہیں‘ لہٰذا لازمی بات ہے کہ اشارہ معتبر ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اشارہ واضح ہونا چاہیے جس سے مقصود صاف سمجھ میں آئے۔ عام آدمی بھی اشاروں سے باتیں کرلیتے ہیں‘ لہٰذا اشارہ معتبر ہوگا‘ خواہ گونگا کرے یا کوئی دوسرا فرد بشرطیکہ اشارہ واضح ہو۔ (۲) رسول اللہﷺ کا حضرت عائشہؓ کو ساتھ لے جانے پر اصرار شاید اس وجہ سے تھا کہ حضرت عائشہؓ کو بھی بھوک لگی تھی۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ کھانے میں اپنے آپ کو ان پر ترجیح دیں۔ یہ مکارم اخلاق کی علامت ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے: ’’ساتھی ]وَشِبْعُ الْفَتٰی لُؤْمٌ اِذا جَاعَ صَاحِبُہُ[ ’’ساتھی بھوکا ہو تو اپنا پیٹ بھرا ہونا قابل ملامت ہے۔‘‘ اور فارسی کا انکار شاید اس وجہ سے تھا کہ شوربہ صرف آپ کی کفایت کرسکتاتھا۔ واللہ ا علم۔