سنن النسائي - حدیث 3462

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب مَنْ لَا يَقَعُ طَلَاقُهُ مِنْ الْأَزْوَاجِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثٍ عَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنْ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبُرَ وَعَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ أَوْ يُفِيقَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3462

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل کن (خاوندوں) کی طلاق واقع نہیں ہوتی؟ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’تین اشخاص سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: سوتے شخص سے حتیٰ کہ وہ جاگ پڑے‘ نابالغ سے حتیٰ کہ وہ بالغ ہوجائے اور مجنون وپاگل سے حتیٰ کہ اسے عقل وہوش آجائے۔
تشریح : ان تین اشخاص کے مرفوع القلم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان حالتوں کے دوران میں ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس پر گرفت نہیں ہوتی کیونکہ ان حالتوں میں انسان بے اختیار ہوتا ہے اور اختیار کیے بغیر پوچھ گچھ بے معنی ہے۔ البتہ اگر کسی کا مالی نقصان ہوجائے تو وہ بھرنا پڑے گا۔ طلاق کوئی مالی مسئلہ نہیں‘ لہٰذا ان تین حالتوں میںدی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ ان حالتو ںمیں انسان مرفوع القلم ہوتا ہے۔ البتہ نشے والی حالت میں طلاق مختلف فیہ ہے۔ احناف موالک وقوع اور شوافع وحنابلہ عدوم وقوع کے قائل ہیں۔ اصولی لحاظ سے نشے میں طلاق واقع نہیںہوتی کیونکہ قصدواختیار نہیں۔ اور نشے کی سزا شریعت میں مقرر ہے‘ وہ اسے دی جائے گی۔ بطور سزا طلاق کو نافذ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم ا سکی سزا میں اضافہ یا دوسزائیں جمع کرنے کے مجاز نہیں۔ واللہ اعلم۔ ان تین اشخاص کے مرفوع القلم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان حالتوں کے دوران میں ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس پر گرفت نہیں ہوتی کیونکہ ان حالتوں میں انسان بے اختیار ہوتا ہے اور اختیار کیے بغیر پوچھ گچھ بے معنی ہے۔ البتہ اگر کسی کا مالی نقصان ہوجائے تو وہ بھرنا پڑے گا۔ طلاق کوئی مالی مسئلہ نہیں‘ لہٰذا ان تین حالتوں میںدی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ ان حالتو ںمیں انسان مرفوع القلم ہوتا ہے۔ البتہ نشے والی حالت میں طلاق مختلف فیہ ہے۔ احناف موالک وقوع اور شوافع وحنابلہ عدوم وقوع کے قائل ہیں۔ اصولی لحاظ سے نشے میں طلاق واقع نہیںہوتی کیونکہ قصدواختیار نہیں۔ اور نشے کی سزا شریعت میں مقرر ہے‘ وہ اسے دی جائے گی۔ بطور سزا طلاق کو نافذ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم ا سکی سزا میں اضافہ یا دوسزائیں جمع کرنے کے مجاز نہیں۔ واللہ اعلم۔