سنن النسائي - حدیث 3457

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب طَلَاقِ الْعَبْدِ ضعيف أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُعَتِّبٍ أَنَّ أَبَا حَسَنٍ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ أَخْبَرَهُ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَامْرَأَتِي مَمْلُوكَيْنِ فَطَلَّقْتُهَا تَطْلِيقَتَيْنِ ثُمَّ أُعْتِقْنَا جَمِيعًا فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ إِنْ رَاجَعْتَهَا كَانَتْ عِنْدَكَ عَلَى وَاحِدَةٍ قَضَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُ مَعْمَرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3457

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل غلام کی طلاق بنونوفل کے مولیٰ حضرت ابوحسن سے مروی ہے کہ میں اور میری بیوی دونوں غلام تھے۔ میں نے اسے دو طلاقیں دے دی تھیں‘ پھر ہم دونوں آزاد کردیے گئے۔ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اگر تو اس سے رجوع کرلے تو وہ تیرے پاس لوٹ سکتی ہے اور ایک طلاق باقی ہوگی۔ رسول اللہﷺ نے یہی فیصلہ فرمایا ہے۔ معمر نے (علی بن مبارک کی) مخالفت کی ہے۔
تشریح : (۱) یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں موجود ہے۔ متن میں مخالفت تو واضح ہے‘ سند میں مخالفت یہ ہے کہ معمر نے عن الحسن مولیٰ بنی نوفل کہا ہے جو کہ وہم ہے۔ صحیح ابو الحسن مولیٰ بنی نوفل ہے جیسا کہ علی بن مبارک کی سابقہ راویت میں ہے۔ (۲) مذکورہ وہم کی نسبت معمر کی طرف کرنا محل نظر ہے۔ امام مزی رحمہ اللہ تحفۃ الاشراف میں لکھتے ہیں: ’’اس وہم کی نسبت معمر یا ان کے شاگرد عبدالرزاق کی طرف کرنا محل نظر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل اور محمد بن عبدالملک بن زنجویہ اور دیگر کئی لوگ اس راویت کو عن عبدالرزاق عن معمر کی سند سے بیان کرتے ہیں لیکن ان تمام نے عن ابی الحسن ہی کہا ہے۔ (جو کہ صحیح ہے صرف نسائی میں عن الحسن ہے‘ لہٰذا یہ سہو یا توخود امام نسائی رحمہ اللہ کو لگا ہے یا ان کے استاد محمد بن رافع کو۔) واللہ اعلم۔ دیکھیے: (تحفۃ الأشرف بمعرفۃ الآطراف: ۵/۲۷۴) یعنی معمر کی راویت بھی علی بن مبارک کی طرح عن ابی الحسن ہی ہے۔ معمر نے علی بن مبارک کی مخالفت نہیں کی اور مصنف رحمہ اللہ کا ان کے وہم کی طرف اشارہ درست نہیں بلکہ وہم کسی اور کو لگا ہے‘ امام نسائی رحمہ اللہ کو یا ان کے استاد محد بن رافع کو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۸/۳۳۷،۳۳۸) (۳) آزاد مرد کو تین طلاقوں کا اختیار ہے مگر غلام کو دو طلاقوں کا۔ راوئی حدیث کا حق بھی حاصل ہوگیا‘ لہٰذا وہ رجوع کرسکتے تھے۔ اور اگر عدت گزر چکی ہو تو وہ نیا نکاح بھی کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے دو طلاقیں اکٹھی دی ہوں۔ اس صورت میں وہ ایک کے قائم مقام تھیں اور انہیں رجوع کا حق حاصل تھا۔ پھر معنی ہوں گے‘ اگر تو اس سے رجوع کرے تو وہ تیرے پاس آجائے گی اور اسے ایک طلاق پڑ گئی۔‘‘ واللہ اعلم۔ ویسے یہ اور اگلی دونوں روایات ضعیف ہیں۔ (۱) یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں موجود ہے۔ متن میں مخالفت تو واضح ہے‘ سند میں مخالفت یہ ہے کہ معمر نے عن الحسن مولیٰ بنی نوفل کہا ہے جو کہ وہم ہے۔ صحیح ابو الحسن مولیٰ بنی نوفل ہے جیسا کہ علی بن مبارک کی سابقہ راویت میں ہے۔ (۲) مذکورہ وہم کی نسبت معمر کی طرف کرنا محل نظر ہے۔ امام مزی رحمہ اللہ تحفۃ الاشراف میں لکھتے ہیں: ’’اس وہم کی نسبت معمر یا ان کے شاگرد عبدالرزاق کی طرف کرنا محل نظر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل اور محمد بن عبدالملک بن زنجویہ اور دیگر کئی لوگ اس راویت کو عن عبدالرزاق عن معمر کی سند سے بیان کرتے ہیں لیکن ان تمام نے عن ابی الحسن ہی کہا ہے۔ (جو کہ صحیح ہے صرف نسائی میں عن الحسن ہے‘ لہٰذا یہ سہو یا توخود امام نسائی رحمہ اللہ کو لگا ہے یا ان کے استاد محمد بن رافع کو۔) واللہ اعلم۔ دیکھیے: (تحفۃ الأشرف بمعرفۃ الآطراف: ۵/۲۷۴) یعنی معمر کی راویت بھی علی بن مبارک کی طرح عن ابی الحسن ہی ہے۔ معمر نے علی بن مبارک کی مخالفت نہیں کی اور مصنف رحمہ اللہ کا ان کے وہم کی طرف اشارہ درست نہیں بلکہ وہم کسی اور کو لگا ہے‘ امام نسائی رحمہ اللہ کو یا ان کے استاد محد بن رافع کو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۸/۳۳۷،۳۳۸) (۳) آزاد مرد کو تین طلاقوں کا اختیار ہے مگر غلام کو دو طلاقوں کا۔ راوئی حدیث کا حق بھی حاصل ہوگیا‘ لہٰذا وہ رجوع کرسکتے تھے۔ اور اگر عدت گزر چکی ہو تو وہ نیا نکاح بھی کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے دو طلاقیں اکٹھی دی ہوں۔ اس صورت میں وہ ایک کے قائم مقام تھیں اور انہیں رجوع کا حق حاصل تھا۔ پھر معنی ہوں گے‘ اگر تو اس سے رجوع کرے تو وہ تیرے پاس آجائے گی اور اسے ایک طلاق پڑ گئی۔‘‘ واللہ اعلم۔ ویسے یہ اور اگلی دونوں روایات ضعیف ہیں۔