سنن النسائي - حدیث 3449

كِتَابُ الطَّلَاقِ تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَلِيٍّ الْمَوْصِلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنِّي جَعَلْتُ امْرَأَتِي عَلَيَّ حَرَامًا قَالَ كَذَبْتَ لَيْسَتْ عَلَيْكَ بِحَرَامٍ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ عَلَيْكَ أَغْلَظُ الْكَفَّارَةِ عِتْقُ رَقَبَةٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3449

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل :۱۶۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟ کی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: میں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ آپ نے فرمایا: تو نے جھوٹ کہا ہے۔ وہ تجھ پر حرام نہیں‘ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: {یٰآَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ} ’’اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی ہے؟‘‘ ہاں تجھ پر سخت ترین کفارہ ہوگا‘ یعنی ایک غلام آزاد کرنا۔
تشریح : ’’تونے جھوٹ کہا‘‘ یعنی تیرا اپنی بیوی کو اپنے لیے حرام کہنا جھوٹ اور غلط بات ہے کیونکہ بیوی کسیے حرام ہوسکتی ہے؟ ہاں طلاق کی نیت سے کہے تو الگ بات ہے۔ (۲) ’’تجھ پر سخت ترین کفارہ ہوگا‘‘ کیونکہ تو نے انتہائی قبیح بات کہی۔ بیوی تو حرام نہیں ہوگی مگر اس قبیح بات کی سزا تجھے برداشت کرنا ہوگی۔ (دیکھیے‘ حدیث: ۳۴۱۱) (۳) ’’ایک غلام آزاد کرنا‘‘ قرآن مجید کے علاوہ مسکینوں کا کھانا یا لباس یا روزے بھی آتے ہیں۔ ممکن ہے یہ شخص امر ہو‘ اس لیے حضرت ابن عباسb نے اس کے لیے سختی ضروری سمجھی اور غلام آزاد کرنے کا کہا ہو۔ واللہ اعلم ’’تونے جھوٹ کہا‘‘ یعنی تیرا اپنی بیوی کو اپنے لیے حرام کہنا جھوٹ اور غلط بات ہے کیونکہ بیوی کسیے حرام ہوسکتی ہے؟ ہاں طلاق کی نیت سے کہے تو الگ بات ہے۔ (۲) ’’تجھ پر سخت ترین کفارہ ہوگا‘‘ کیونکہ تو نے انتہائی قبیح بات کہی۔ بیوی تو حرام نہیں ہوگی مگر اس قبیح بات کی سزا تجھے برداشت کرنا ہوگی۔ (دیکھیے‘ حدیث: ۳۴۱۱) (۳) ’’ایک غلام آزاد کرنا‘‘ قرآن مجید کے علاوہ مسکینوں کا کھانا یا لباس یا روزے بھی آتے ہیں۔ ممکن ہے یہ شخص امر ہو‘ اس لیے حضرت ابن عباسb نے اس کے لیے سختی ضروری سمجھی اور غلام آزاد کرنے کا کہا ہو۔ واللہ اعلم