سنن النسائي - حدیث 3446

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب مُوَاجَهَةِ الرَّجُلِ الْمَرْأَةَ بِالطَّلَاقِ صحيح أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ عَنْ الَّتِي اسْتَعَاذَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ الْكِلَابِيَّةَ لَمَّا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِي بِأَهْلِكِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3446

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل مرد اپنی بیوی کو بالمشافہ طلاق دے سکتا ہے اوزاعی کہتے ہیں کہ میں نے امام زہری سے اس عورت کے متعلق پوچھا جس نے رسول اللہﷺ سے پناہ مانگی تھی تو انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت عروہ نے حضرت عائشہؓ سے بیان کیا ہے کہ آپﷺ کی کلابی بیوی جب آپ کے پاس آئی تو کہنے لگی: میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تو بہت بڑی ذا ت کی پناہ میں آئی ہے‘ لہٰذا اپنے گھر چلی جا۔‘‘
تشریح : (۱) ’’کلابی بیوی‘‘ ان کا نام فاطمہ بنت ضحاک تھا۔ ان کے والد گرامی نے ان کا نکاح رسول اللہﷺ کے ساتھ کیا تھا۔ اختلاف یہ ہے کہ انہوں نے یہ لفظ (میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں) کیوں کہے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ کسی نے انہیں دھوکا دیتے ہوئے کہا کہ تو یہ لفظ رسول اللہﷺ سے اول ملاقات میں کہے گی تو آپ بڑے خوش ہوں گے۔ وہ اس دھوکے میں آگئیں کیونکہ یہ لفظ تو طلاق طلب کرنے کے لیے ہیں۔ یا ممکن ہے‘ باپ کے کیے ہوئے نکاح پر راضی نہ ہوں‘ لہٰذا یہ لفظ کہے۔ بہر حال آپ نے طلاق دے دی۔ (۲) طلاق چونکہ انتہائی قبیح چیز ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ عورت کو بالمشافہ طلاق نہ دی جائے بلکہ پیغام یا تحریر کی صورت میں بھیجی جائے۔ لیکن چونکہ اس عورت نے خود مطالبہ کیا تھا‘ لہٰذا آپ نے اسے بالمشافہ طلاق دی۔ گویا ایسے بھی ہوسکتا ہے۔ (۳) ’’اپنے گھر چلی جا‘‘ یہ الفاظ اگر طلاق کی نیت سے کہے جائیں تو طلاق ہوجائے گی۔ یہاں ایسے ہی ہے۔ (۱) ’’کلابی بیوی‘‘ ان کا نام فاطمہ بنت ضحاک تھا۔ ان کے والد گرامی نے ان کا نکاح رسول اللہﷺ کے ساتھ کیا تھا۔ اختلاف یہ ہے کہ انہوں نے یہ لفظ (میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں) کیوں کہے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ کسی نے انہیں دھوکا دیتے ہوئے کہا کہ تو یہ لفظ رسول اللہﷺ سے اول ملاقات میں کہے گی تو آپ بڑے خوش ہوں گے۔ وہ اس دھوکے میں آگئیں کیونکہ یہ لفظ تو طلاق طلب کرنے کے لیے ہیں۔ یا ممکن ہے‘ باپ کے کیے ہوئے نکاح پر راضی نہ ہوں‘ لہٰذا یہ لفظ کہے۔ بہر حال آپ نے طلاق دے دی۔ (۲) طلاق چونکہ انتہائی قبیح چیز ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ عورت کو بالمشافہ طلاق نہ دی جائے بلکہ پیغام یا تحریر کی صورت میں بھیجی جائے۔ لیکن چونکہ اس عورت نے خود مطالبہ کیا تھا‘ لہٰذا آپ نے اسے بالمشافہ طلاق دی۔ گویا ایسے بھی ہوسکتا ہے۔ (۳) ’’اپنے گھر چلی جا‘‘ یہ الفاظ اگر طلاق کی نیت سے کہے جائیں تو طلاق ہوجائے گی۔ یہاں ایسے ہی ہے۔