كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب إِحْلَالِ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا وَمَا فِيهِ مِنْ التَّغْلِيظِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي قَيْسٍ عَنْ هُزَيْلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُوتَشِمَةَ وَالْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصُولَةَ وَآكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَالْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
تین طلاقوں والی کو قصداً پہلے خاوند کے لیے حلال کرنا سخت گناہ ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جسم میں رنگ بھرنے والی‘ بھروانے والی‘ زائد بال ملانے والی اور جسے زائد بال لگائے جائیں‘ سود کھانے والے اور کھلانے والے‘ حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے‘ ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔
تشریح :
(۱) یہ لوگ چونکہ فطرت انسانی کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ اس لیے لعنت کے مستحق ہیں۔ (۲) ’’رنگ بھرنے والی‘‘ جسم کو پہلے سوئی کے ساتھ چھیدا جاتا ہے‘ پھر ان سوراخوں میں سرمہ یا نیل ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ رنگ بعد میں سبز یا نیلگیوں نظر آتا ہے۔ اس کا میں غیر ضرورتی تکلف ہے۔ صرف حصول حسن کے لیے اپنے آپ کو چھیدنا فطرت کے خلاف ہے۔ حسن اصل نہیں‘ انسان اصل ہے۔ (۳) ’’بال ملانے والی‘‘ اصل بالوں کے ساتھ زائد جعلی بال ملانا دھوکا دہی اور جعل سازی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے‘ اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کردیا گیا۔ (۵) ’’حلالہ کرنے والا‘‘ یعنی مطلقہ عورت سے اس نیت سے نکاح کرنے والا کہ ایک ددودن جماع کے بعد چوڑ دوں گا‘ یہ انسانی فطرت کے بجائے حیوانی فطرت ہے۔ انسانی فطرت تو مستقل نکاح کا تقاضا کرتی ہے جو انتہائی پاکیزہ عمل ہے جب کہ ’’حلالہ‘‘ تو سانڈ کی فطرف ہے اور انسانی فطرت کو مسخ کرنے والی چیزہے‘ لہٰذا یہ ملعون فعل ہے اور ایسا فعل نکاح کی بجائے زنا ہے۔ اس سے حلت جیسا پاکیزہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بعض حلیہ ساز لوگوں نے اسے مشروع بنادیا ہے۔ افسوس! ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
(۱) یہ لوگ چونکہ فطرت انسانی کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ اس لیے لعنت کے مستحق ہیں۔ (۲) ’’رنگ بھرنے والی‘‘ جسم کو پہلے سوئی کے ساتھ چھیدا جاتا ہے‘ پھر ان سوراخوں میں سرمہ یا نیل ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ رنگ بعد میں سبز یا نیلگیوں نظر آتا ہے۔ اس کا میں غیر ضرورتی تکلف ہے۔ صرف حصول حسن کے لیے اپنے آپ کو چھیدنا فطرت کے خلاف ہے۔ حسن اصل نہیں‘ انسان اصل ہے۔ (۳) ’’بال ملانے والی‘‘ اصل بالوں کے ساتھ زائد جعلی بال ملانا دھوکا دہی اور جعل سازی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے‘ اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کردیا گیا۔ (۵) ’’حلالہ کرنے والا‘‘ یعنی مطلقہ عورت سے اس نیت سے نکاح کرنے والا کہ ایک ددودن جماع کے بعد چوڑ دوں گا‘ یہ انسانی فطرت کے بجائے حیوانی فطرت ہے۔ انسانی فطرت تو مستقل نکاح کا تقاضا کرتی ہے جو انتہائی پاکیزہ عمل ہے جب کہ ’’حلالہ‘‘ تو سانڈ کی فطرف ہے اور انسانی فطرت کو مسخ کرنے والی چیزہے‘ لہٰذا یہ ملعون فعل ہے اور ایسا فعل نکاح کی بجائے زنا ہے۔ اس سے حلت جیسا پاکیزہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بعض حلیہ ساز لوگوں نے اسے مشروع بنادیا ہے۔ افسوس! ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟