سنن النسائي - حدیث 3439

كِتَابُ الطَّلَاقِ أَمْرُكِ بِيَدِكِ ضعيف أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ قُلْتُ لِأَيُّوبَ هَلْ عَلِمْتَ أَحَدًا قَالَ فِي أَمْرِكِ بِيَدِكِ أَنَّهَا ثَلَاثٌ غَيْرَ الْحَسَنِ فَقَالَ لَا ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ غَفْرًا إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثٌ فَلَقِيتُ كَثِيرًا فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ نَسِيَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3439

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل (خاوند بیوی سے کہے:) تیرا معاملہ تیرے اختیار میں ہے (تو کیا ہوگا؟) حضرت حماد بن زید سے منقول ہے کہ میں نے ایوب سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی نے ]أَمْرُکِ بِیَدِکَ[’’تیرا معاملہ تیرے اختیار میں ہے‘‘ کہنے کی صورت میں اسے تین طلاق کہا ہو؟ سوائے حضرت حس بصری کے؟ انہوں نے کہا: نہیں‘ پھر کہنے لگے: یا اللہ! معاف فرمانا۔ (ہاں) مگر وہ حدیث جو مجھے قتادہ نے کثیر مولی ابن سمرہ عن ابی ہریرہ کی سند سے بیان کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’(یہ الفاظ کہنا) تین طلاقیں ہیں۔‘‘ (حضرت حماد نے کہا:) میں کثیر کو ملا اور ان سے حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس حدیث سے لاعلمی ظاہر کی‘ پھر میں حضرت قتادہ کے پاس گیا اور ان سے پوری بات ذکر کی تو انہوں نے کہا: کثیر بھول گئے۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔
تشریح : (۱) امام نسائی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے‘ یعنی رسول اللہﷺ کا فرنان نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ مقطوعاً صحیح ثابت ہے‘ یعنی حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے‘ مرفوعاً یا موقوفاً صحیح ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن أبیی داود (مفصل) للألبانیی: ۱۰/۲۳۴‘ رقم: ۳۷۹) (۲) خاوند بیوی سے ]أَمْرُکِ بِیَدِکِ[ کہہ دے‘ یعنی تجھے طلاق لینے کا اختیار ہے‘ چاہے تو لے لے۔ عورت کہے کہ میں نے طلاق لے لی تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ بعض حضرات تین کے قائل ہیں‘ یعنی وہ عورت اس سے مستقلاً جدا ہوجائے گی۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک اس عورت کو ایک طلاق واقع ہوگی کیونکہ لفظ طلاق سے ایک ہی طلاق سمجھ میں آتی ہے‘ نیز بیک وقت تین طلاقیں تو بدعت ہیں۔ البتہ خاوند کو رجوع کا حق نہیں ہوگا۔ عدت کے بعد دونوں رضا مند ہوں تو نیا نکاح کرسکتے ہیں۔ (۳) ’’یا اللہ! معاف فرمانا‘‘ یعنی مجھ سے غلطی ہوگئی اور میں نے جلد بازی میں نہیں کہہ دیا۔ اسی جلد باز کی معافی طلب کی ورنہ نسیان وخطا تو منجانب اللہ معاف ہیں ہی۔ (۴) ’’کثیر بھول گئے‘‘ اگر کوئی راوی حدیث بیان کرنے کے بعد بھول جائے لیکن اس کا شاگرد جو وہ حدیث بیان کررہا ہے‘ ثقہ ہو اور بالیقین کہے تو روایت معتبر ہوگی۔ نسیان کا روایت کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا۔ (۱) امام نسائی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے‘ یعنی رسول اللہﷺ کا فرنان نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ مقطوعاً صحیح ثابت ہے‘ یعنی حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے‘ مرفوعاً یا موقوفاً صحیح ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن أبیی داود (مفصل) للألبانیی: ۱۰/۲۳۴‘ رقم: ۳۷۹) (۲) خاوند بیوی سے ]أَمْرُکِ بِیَدِکِ[ کہہ دے‘ یعنی تجھے طلاق لینے کا اختیار ہے‘ چاہے تو لے لے۔ عورت کہے کہ میں نے طلاق لے لی تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ بعض حضرات تین کے قائل ہیں‘ یعنی وہ عورت اس سے مستقلاً جدا ہوجائے گی۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک اس عورت کو ایک طلاق واقع ہوگی کیونکہ لفظ طلاق سے ایک ہی طلاق سمجھ میں آتی ہے‘ نیز بیک وقت تین طلاقیں تو بدعت ہیں۔ البتہ خاوند کو رجوع کا حق نہیں ہوگا۔ عدت کے بعد دونوں رضا مند ہوں تو نیا نکاح کرسکتے ہیں۔ (۳) ’’یا اللہ! معاف فرمانا‘‘ یعنی مجھ سے غلطی ہوگئی اور میں نے جلد بازی میں نہیں کہہ دیا۔ اسی جلد باز کی معافی طلب کی ورنہ نسیان وخطا تو منجانب اللہ معاف ہیں ہی۔ (۴) ’’کثیر بھول گئے‘‘ اگر کوئی راوی حدیث بیان کرنے کے بعد بھول جائے لیکن اس کا شاگرد جو وہ حدیث بیان کررہا ہے‘ ثقہ ہو اور بالیقین کہے تو روایت معتبر ہوگی۔ نسیان کا روایت کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا۔