سنن النسائي - حدیث 3435

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب طَلَاقِ الثَّلَاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ بِالزَّوْجَةِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ جَاءَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الثَّلَاثَ كَانَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تُرَدُّ إِلَى الْوَاحِدَةِ قَالَ نَعَمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3435

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل عورت کے ساتھ شب بسری سے پہلے اسے تین طلاقیں دینا حضرت طاوس سے منقول ہے کہ حضرت ابوصہباء حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے ابن عباس! کیا آپ جاتنے کہ بیک وقت تین طلاقیں رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں‘ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں‘ ایک طلاق سمجھی جاتی تھیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔
تشریح : اس حدیث میں دخول سے پہلے یا بعد کی کوئی قید نہیں۔ دراصل امام صاحب نے اس روایت کو جمہور اہل علم کے موقف کے موافق کرنے کے لیے یہ تاویل کی ہے کہ اس حدیث میں اس عورت کی تین طلاقیں مراد ہیں جس سے جماع نہ کیا گیا ہو۔ اس عورت کے لیے تین اور ایک برابر ہیں کیونکہ ایسی عورت جس سے جماع نہ کیا گیا ہو‘ اس کے لیے ایک طلاق بھی بائن ہوتی ہے‘ یعنی اس سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر حدیث کو اچھی طرح پڑھا جائے تو یہ تاویل غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ مسئلہ تو شروع سے ہمیشہ کے لیے یہی رہا ہے اور اب بھی ایسے ہی ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے۔ اس کے لیے حضرت عمر کے ابتدائی دور کی قید لگانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔ عورت مدخول بہا ہو یا غیر مدخول بہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بطور سزا تین کو تین ہی نافذ کردیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ وتابعین یہی فتویٰ دینا شروع کردیا حتیٰ کہ اس حدیث کو روای صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کو مشکوک سمجھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سیاسی اور انتظامی اور تعزیری فیصلہ تھا۔ جس طرح انتظامی فیصللے بدلے رہتے ہیں‘ یہ بھی بدل سکتا ہے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ اس کی صراحت کرتے رہے ہیں کہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔ صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت ابن مسعود‘ حضرت زبیر‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفf‘ تابعین میں سے حضرت طاوس اور عکرمہ اسی کے قائل ہیں۔ امام ا لمغازی محمد بن اسحاق‘ شیخ الاسلام ابن قیم اور علامہ ابن حزم کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ امام مالک سے بھی ایک قول یہی نقل کیا گیا ہے۔ مالکیہ میں سے بہت سے فقہاء اور حنفیہ میں سے محمد بن مقاتل رازی بھی یہی کہتے ہیں۔ اب اسے شاذ مسلک کہنا ائمئہ اربعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ ہر دور میں لوگ اس کے قائل رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:۳۴۳۰ مزید دیکھیے: ’’ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف) اس حدیث میں دخول سے پہلے یا بعد کی کوئی قید نہیں۔ دراصل امام صاحب نے اس روایت کو جمہور اہل علم کے موقف کے موافق کرنے کے لیے یہ تاویل کی ہے کہ اس حدیث میں اس عورت کی تین طلاقیں مراد ہیں جس سے جماع نہ کیا گیا ہو۔ اس عورت کے لیے تین اور ایک برابر ہیں کیونکہ ایسی عورت جس سے جماع نہ کیا گیا ہو‘ اس کے لیے ایک طلاق بھی بائن ہوتی ہے‘ یعنی اس سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر حدیث کو اچھی طرح پڑھا جائے تو یہ تاویل غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ مسئلہ تو شروع سے ہمیشہ کے لیے یہی رہا ہے اور اب بھی ایسے ہی ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے۔ اس کے لیے حضرت عمر کے ابتدائی دور کی قید لگانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔ عورت مدخول بہا ہو یا غیر مدخول بہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بطور سزا تین کو تین ہی نافذ کردیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ وتابعین یہی فتویٰ دینا شروع کردیا حتیٰ کہ اس حدیث کو روای صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کو مشکوک سمجھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سیاسی اور انتظامی اور تعزیری فیصلہ تھا۔ جس طرح انتظامی فیصللے بدلے رہتے ہیں‘ یہ بھی بدل سکتا ہے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ اس کی صراحت کرتے رہے ہیں کہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔ صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت ابن مسعود‘ حضرت زبیر‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفf‘ تابعین میں سے حضرت طاوس اور عکرمہ اسی کے قائل ہیں۔ امام ا لمغازی محمد بن اسحاق‘ شیخ الاسلام ابن قیم اور علامہ ابن حزم کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ امام مالک سے بھی ایک قول یہی نقل کیا گیا ہے۔ مالکیہ میں سے بہت سے فقہاء اور حنفیہ میں سے محمد بن مقاتل رازی بھی یہی کہتے ہیں۔ اب اسے شاذ مسلک کہنا ائمئہ اربعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ ہر دور میں لوگ اس کے قائل رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:۳۴۳۰ مزید دیکھیے: ’’ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف)