سنن النسائي - حدیث 3432

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَحْمَسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ قَالَتْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَنَا بِنْتُ آلِ خَالِدٍ وَإِنَّ زَوْجِي فُلَانًا أَرْسَلَ إِلَيَّ بِطَلَاقِي وَإِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَهُ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى فَأَبَوْا عَلَيَّ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَيْهَا بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3432

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل تین طلاقیں اکٹھی دینے کی رخصت حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میں آل خالد میں سے ایک عورت ہوں۔ میرے خاوند نے مجھے (آخری) طلاق بھیج دی ہے۔ میں نے خاوند کے گھر والوں سے اپنے لیے رہائش اور اخراجات طلب کیے تو انہوں نے انکار کردیا ہے۔ انہوں (خاوند کے گھر والوں) نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! اس کے خاوند نے اسے تین طلاقیں بھیج دی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اخراجات ورہائش تو اس (مطلقہ) عورت کو ملتے ہیں جس کے خاوند کو اس سے رجوع کا حق ہے۔‘‘
تشریح : یہ روایت اس سے پہلے بھی مختلف مقامات پر آچکی ہے۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقیں دیں۔ کسی میں ہے: مجھے بتہ طلاق دی۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی‘ لہٰذا اس روایت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے پر استدلال درست نہیں کیونکہ روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل خاوند نے تیسری طلاق بھیجی تھی۔ دوطلاقیں وہ پہلے دے چکا تھا‘ اس لیے ظاہراً اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ’’اخراجات ورہائش‘‘ کا مسئلہ حدیث:۳۲۲۴ میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ یہ روایت اس سے پہلے بھی مختلف مقامات پر آچکی ہے۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقیں دیں۔ کسی میں ہے: مجھے بتہ طلاق دی۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی‘ لہٰذا اس روایت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے پر استدلال درست نہیں کیونکہ روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل خاوند نے تیسری طلاق بھیجی تھی۔ دوطلاقیں وہ پہلے دے چکا تھا‘ اس لیے ظاہراً اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ’’اخراجات ورہائش‘‘ کا مسئلہ حدیث:۳۲۲۴ میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔