سنن النسائي - حدیث 3430

كِتَابُ الطَّلَاقِ الثَّلَاثُ الْمَجْمُوعَةُ وَمَا فِيهِ مِنْ التَّغْلِيظِ ضعيف أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ قَالَ أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3430

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل تین طلاقیں اکٹھی دینا سخت گناہ ہے حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپ غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے؟‘‘ حتیٰ کہ ایک آدمی کھڑا ہو کرکہنے لگا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟
تشریح : (۱) شریعت نے انسانو ںکی کمزوری اور جلد بازی کو مدنظر رکھتے ہوئے طلاق کے تین مواقع رکھے ہیں اور پہلی دوطلاقوں کے بعد رجوع کی رعایت بھی رکھی ہے تاکہ یہ انتہائی مضبوط تعلق کسی انسان کی جلد بازی کا شکار نہ ہوجائے بلکہ دو طلاقوں کے بعد وہ اچھی طرح سوچ سمجھ لے اور جذبات سے الگ ہو کر فیصلہ کرے۔ جس شخص نے تینوں طلاقیں اکٹھی دے دیں‘ اس نے یہ تمام مواقع گنوادیے‘ اور اس اہم تعلق کو اشتعال اور جلد بازی کی نذر کردیا حتیٰ کہ اس عورت سے نئے نکاح کا امکان بھی نہ رہا‘ نیز اس نے اس صریح قرآنی ہدایت کی نافرمانی کی {اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ} (البقرۃ۲:۲۲۹) ’’طلاق دوبار ہے‘‘ یعنی طلاق الگ الگ ہونی چاہیے‘ لہٰذا یہ شخص سزا کا مستوجب ہے۔ تبھی تو دوسرے آدمی نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی کیونکہ کتاب اللہ کو مذاق بنانا‘ نیز علانیہ مخالفت کرنا ناقابل برداشت ہے۔ تبھی آپ سخت ناراض ہوئے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا خلاف شرع اور بدعت ہے۔ امام مالک اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں مگر امام شافعی اور احمد رحمہ اللہ اسے حرام نہیں سمجھتے کہ تین طلاقیں مرد کا حق تھا اس نے جیسے چاہا استعمال کرلیا۔ اگر مواقع ضائع کیے ہیں تو اس نے اپنے کیے ہیں۔ البتہ وہ اسے خلاف اولیٰ سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا مسلک اس حدیث کے خلاف ہے۔ اگر حیض کی طلاق کو حرام اور بدعت کہاجاسکتا ہے تو اس کو کیوں نہیں؟ جب کہ رسول اللہﷺ نے دونوں مقامات پر ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔ (۳) اگر کوئی شخص اس حرام کا ارتکاب کرے تو جمہور اہل علم کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور وہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی۔ ا س کے برعکس دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ ایک طلاق شمار ہوگی۔ اس کی دلیل صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دور میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر نے بطور سزاتین ہی کی تنفیذ فرمادی‘ اس لیے بعض اہل علم ایسی صورت میں تین کے بجائے ایک کے وقوع کے قائل ہیں کیونکہ اس نے طلاق کا ایک موقع استعمال کیا ہے۔ باقی رہا تین کا لفظ تو وہ خلاف شرع ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ان تین قراردینا صرف تعزیر اور سزا تھی‘ سیاسی وانتظامی مسئلہ تھا۔ شرعی حکم اپنی جگہ برقرار ہے۔ یہ بات عقلاً اور نقلاً زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسلک (ایک واقع ہونا) عوام الناس کے لیے مفید ہے‘ خصوصاً جبکہ ایک صحیح حدیث بھی اس مسلک کی تائید کرتی ہے ورنہ لوگ حلالہ جیسے ذلیل اور غیرت کش فعل کا ارتکاب کرتے ہیں جو شرعاً اور اخلاقاً بہت بڑا جرم ہے۔ حضرت علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے فقہاء صحابہ سے بھی یہ مسلک منقول ہے۔ (۱) شریعت نے انسانو ںکی کمزوری اور جلد بازی کو مدنظر رکھتے ہوئے طلاق کے تین مواقع رکھے ہیں اور پہلی دوطلاقوں کے بعد رجوع کی رعایت بھی رکھی ہے تاکہ یہ انتہائی مضبوط تعلق کسی انسان کی جلد بازی کا شکار نہ ہوجائے بلکہ دو طلاقوں کے بعد وہ اچھی طرح سوچ سمجھ لے اور جذبات سے الگ ہو کر فیصلہ کرے۔ جس شخص نے تینوں طلاقیں اکٹھی دے دیں‘ اس نے یہ تمام مواقع گنوادیے‘ اور اس اہم تعلق کو اشتعال اور جلد بازی کی نذر کردیا حتیٰ کہ اس عورت سے نئے نکاح کا امکان بھی نہ رہا‘ نیز اس نے اس صریح قرآنی ہدایت کی نافرمانی کی {اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ} (البقرۃ۲:۲۲۹) ’’طلاق دوبار ہے‘‘ یعنی طلاق الگ الگ ہونی چاہیے‘ لہٰذا یہ شخص سزا کا مستوجب ہے۔ تبھی تو دوسرے آدمی نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی کیونکہ کتاب اللہ کو مذاق بنانا‘ نیز علانیہ مخالفت کرنا ناقابل برداشت ہے۔ تبھی آپ سخت ناراض ہوئے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا خلاف شرع اور بدعت ہے۔ امام مالک اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں مگر امام شافعی اور احمد رحمہ اللہ اسے حرام نہیں سمجھتے کہ تین طلاقیں مرد کا حق تھا اس نے جیسے چاہا استعمال کرلیا۔ اگر مواقع ضائع کیے ہیں تو اس نے اپنے کیے ہیں۔ البتہ وہ اسے خلاف اولیٰ سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا مسلک اس حدیث کے خلاف ہے۔ اگر حیض کی طلاق کو حرام اور بدعت کہاجاسکتا ہے تو اس کو کیوں نہیں؟ جب کہ رسول اللہﷺ نے دونوں مقامات پر ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔ (۳) اگر کوئی شخص اس حرام کا ارتکاب کرے تو جمہور اہل علم کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور وہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی۔ ا س کے برعکس دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ ایک طلاق شمار ہوگی۔ اس کی دلیل صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دور میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر نے بطور سزاتین ہی کی تنفیذ فرمادی‘ اس لیے بعض اہل علم ایسی صورت میں تین کے بجائے ایک کے وقوع کے قائل ہیں کیونکہ اس نے طلاق کا ایک موقع استعمال کیا ہے۔ باقی رہا تین کا لفظ تو وہ خلاف شرع ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ان تین قراردینا صرف تعزیر اور سزا تھی‘ سیاسی وانتظامی مسئلہ تھا۔ شرعی حکم اپنی جگہ برقرار ہے۔ یہ بات عقلاً اور نقلاً زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسلک (ایک واقع ہونا) عوام الناس کے لیے مفید ہے‘ خصوصاً جبکہ ایک صحیح حدیث بھی اس مسلک کی تائید کرتی ہے ورنہ لوگ حلالہ جیسے ذلیل اور غیرت کش فعل کا ارتکاب کرتے ہیں جو شرعاً اور اخلاقاً بہت بڑا جرم ہے۔ حضرت علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے فقہاء صحابہ سے بھی یہ مسلک منقول ہے۔