سنن النسائي - حدیث 3423

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب طَلَاقِ السُّنَّةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ طَلَاقُ السُّنَّةِ تَطْلِيقَةٌ وَهِيَ طَاهِرٌ فِي غَيْرِ جِمَاعٍ فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى ثُمَّ تَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِكَ بِحَيْضَةٍ قَالَ الْأَعْمَشُ سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3423

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل طلاق سنت کا بیان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ طلاق سنت یہ ہے کہ طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر ایک طلاق دی جائے‘ پھر جب وہ حیض کے بعد پاک ہو تو اسے دوسری طلاق دے دے‘ پھر جب اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہوجائے تو اسے تیسری طلاق دے دے‘ پھر اس کے بعد وہ عورت ایک حیض عدت گزارے گی۔ (راوئی حدیث) حضرت اعمش نے کہا: میں نے حضرت ابراہیم نخعی سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔
تشریح : احناف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کی وجہ سے مذکورہ طریقے سے تین طلاقیں دینے ہی کوطلاق سنت سمجھتے ہیں‘ حالانکہ یہ عجیب طلاق سنت ہے جس نے یک لخت ایک عورت کو حرام کرکے چھوڑا‘ نیز طلاق تو ایک بھی ممدوح نہیں چہ جائیکہ بلا ضرورت پے درپے تین طلاقیں دے دی جائیں‘ پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک طلاق سے عورت خاوند سے جدا ہوسکتی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ تین سے پہلے بس نہ کی جائے‘ لہٰذا یہ طلاق سنت نہیں ہوسکتی۔ طلاق سنت یہ ہے کہ بیوی کو طہر کی حالت میں‘ بغیر جماع کیے‘ ایک طلاق دی جائے اور پھر عدت گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ ممکن ہو تو عدت کے دوران میں رجوع کرلیا جائے ورنہ رہنے دیا جائے تاکہ اگر بعد میں اتفاق ہوجائے تو نیا نکاح ہوسکے۔ یہ قول بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو دلائل کے ساتھ طلاق السنہ ثابت کیا ہے‘ لہٰذا اسی قول کو اخذ کرنا چاہیے تاکہ دوران عدت رجوع اور بعداز عدت نکاح جدید کا راستہ باقی رہے۔ جمہور کا مسلک بھی یہی ہے اور یہی درست ہے۔ ہاں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پہلے قول میں مذکور صورت کو طلاق سنت کہنے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ صورت بھی جائز ہے اگرچہ یہ بہتر نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک تو طلاق پر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ بے فائدہ ہے مگر جمہور اہل علم اس کے وقوع کے قائل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ احناف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کی وجہ سے مذکورہ طریقے سے تین طلاقیں دینے ہی کوطلاق سنت سمجھتے ہیں‘ حالانکہ یہ عجیب طلاق سنت ہے جس نے یک لخت ایک عورت کو حرام کرکے چھوڑا‘ نیز طلاق تو ایک بھی ممدوح نہیں چہ جائیکہ بلا ضرورت پے درپے تین طلاقیں دے دی جائیں‘ پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک طلاق سے عورت خاوند سے جدا ہوسکتی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ تین سے پہلے بس نہ کی جائے‘ لہٰذا یہ طلاق سنت نہیں ہوسکتی۔ طلاق سنت یہ ہے کہ بیوی کو طہر کی حالت میں‘ بغیر جماع کیے‘ ایک طلاق دی جائے اور پھر عدت گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ ممکن ہو تو عدت کے دوران میں رجوع کرلیا جائے ورنہ رہنے دیا جائے تاکہ اگر بعد میں اتفاق ہوجائے تو نیا نکاح ہوسکے۔ یہ قول بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو دلائل کے ساتھ طلاق السنہ ثابت کیا ہے‘ لہٰذا اسی قول کو اخذ کرنا چاہیے تاکہ دوران عدت رجوع اور بعداز عدت نکاح جدید کا راستہ باقی رہے۔ جمہور کا مسلک بھی یہی ہے اور یہی درست ہے۔ ہاں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پہلے قول میں مذکور صورت کو طلاق سنت کہنے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ صورت بھی جائز ہے اگرچہ یہ بہتر نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک تو طلاق پر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ بے فائدہ ہے مگر جمہور اہل علم اس کے وقوع کے قائل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔