كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب وَقْتِ الطَّلَاقِ لِلْعِدَّةِ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا فَقَالَ لَهُ طَلَّقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُرَاجِعْهَا فَرَدَّهَا عَلَيَّ قَالَ إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ(الطلاق:1)
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
اس عدت میں طلاق دینے کا وقت جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے لیے مقرر فرمائی ہے۔
حضرت ابوزبیر کی موجودگی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ کا اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی؟ وہ فرمانے لگے: عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو رسول اللہﷺ کے زمانے میں حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تو (یوں) کہا: عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اسے چاہیے کہ وہ اس سے رجوع کرے۔‘‘ اور آپ نے میری بیوی میرے پاس بھیج دی اور فرمایا: ’’جب یہ حیضژ سے پاک ہو تو پھر طلاق دے یا اپنے نکاح میں رکھے۔‘‘ پھر نبیﷺ نے یہ آیت پڑھی: {یٰآَیُّھَاالنَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَائَ…} ’’اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں ان کی عدت کے شروع وقت میں طلاق دو۔‘‘
تشریح :
(۱)]فِیی قُبُلِ عِدَّتِھِنَّ[ یہ جملہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس کی قراء ت کے مطابق سورئہ طلاق کی پہلی آیت کا حصہ ہے‘ یعنی وہ اسے لِعِدَّتِھِنَّ کی جگہ قراء ت کرتے تھے۔ لیکن یہ قرء ت شاذ ہے‘ تہم یہ جملہ نبیﷺ سے مرفوعاً صحیح ثابت ہے اور حجت ہے جس سے آیت کا مفہوم متعین ہو جاتا ہے‘ یعنی تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں عدت کے آغاز‘ یعنی طہر میںطلاق دو۔ (۲) چونکہ عدت حیض سے شمار ہوتی ہے‘ لہٰـذا حیض کی حالت میں طلاق سے عدت صحیح نہیں شروع ہوسکے گی۔ اگر وہ حیض شمار کریں گے تو عدت کم ہو جائے گی اور اگر اسے شمار نہیں کریں گے تو عدت لمبی ہوجائے گی‘ لہٰذا طلاق طہر میں ہونی چاہیے تاکہ حیض سے عدت شروع ہوسکے۔
(۱)]فِیی قُبُلِ عِدَّتِھِنَّ[ یہ جملہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس کی قراء ت کے مطابق سورئہ طلاق کی پہلی آیت کا حصہ ہے‘ یعنی وہ اسے لِعِدَّتِھِنَّ کی جگہ قراء ت کرتے تھے۔ لیکن یہ قرء ت شاذ ہے‘ تہم یہ جملہ نبیﷺ سے مرفوعاً صحیح ثابت ہے اور حجت ہے جس سے آیت کا مفہوم متعین ہو جاتا ہے‘ یعنی تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں عدت کے آغاز‘ یعنی طہر میںطلاق دو۔ (۲) چونکہ عدت حیض سے شمار ہوتی ہے‘ لہٰـذا حیض کی حالت میں طلاق سے عدت صحیح نہیں شروع ہوسکے گی۔ اگر وہ حیض شمار کریں گے تو عدت کم ہو جائے گی اور اگر اسے شمار نہیں کریں گے تو عدت لمبی ہوجائے گی‘ لہٰذا طلاق طہر میں ہونی چاہیے تاکہ حیض سے عدت شروع ہوسکے۔