سنن النسائي - حدیث 3420

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب وَقْتِ الطَّلَاقِ لِلْعِدَّةِ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ صحيح أَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ قَالَ سُئِلَ الزُّهْرِيُّ كَيْفَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ فَقَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ طَلَّقْتُ امْرَأَتِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حَائِضٌ فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ فَقَالَ لِيُرَاجِعْهَا ثُمَّ يُمْسِكْهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً وَتَطْهُرَ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا فَذَاكَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَرَاجَعْتُهَا وَحَسَبْتُ لَهَا التَّطْلِيقَةَ الَّتِي طَلَّقْتُهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3420

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل اس عدت میں طلاق دینے کا وقت جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے لیے مقرر فرمائی ہے۔ حضرت زہری سے پوچھا گیا کہ صحیح وقت پر طلاق کا کیا طریقہ ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے حضرت سالم نے (اپنے والد محترم) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو رسول اللہﷺ س پر غصے ہوئے اور فرمایا: ’’وہ اس سے رجوع کرے‘ پھر اسے اپنے پاس رکھے حتیٰ کہ اسے ایک اور حیض آئے‘ پھر وہ پاک ہو۔ اب اگر اس کا خیال بنے تو طہر کی حالت میں بغیر جماع کیے اسے طلاق دے دے۔ یہ صحیح وقت پر طلاق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا‘ اور جو طلاق میں نے اسے (حیض کی حالت میں) دی تھی‘ وہ طلاق ہی سمجھی۔
تشریح : جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق اگرچہ گناہ اور ممنوع ہے اور اس سے رجوع ضروری ہے مگر ایسی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا جائے گا۔ مزید دوطلاقیں رہ جاتی ہیں۔ البتہ بعض محققین نے ایسی طلاق کو کالعدم قراردیا ہے کیونکہ اس سے رجوع ضروری ہے‘ نیز رسول اللہﷺ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کی بجائے دو طلاقوں کا مشورہ نہ دے سکتے تھے۔ عقلاً اگرچہ یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے مگر متعلقہ احادیث کے الفاظ اور صحابہ وتابعین کے اقوال‘ نیز محدثین وفقہاء کے مذاہب اس کے خلاف ہیں۔ شاذ لوگ ہی اس طرف گئے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس عقلی مسلک کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق اگرچہ گناہ اور ممنوع ہے اور اس سے رجوع ضروری ہے مگر ایسی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا جائے گا۔ مزید دوطلاقیں رہ جاتی ہیں۔ البتہ بعض محققین نے ایسی طلاق کو کالعدم قراردیا ہے کیونکہ اس سے رجوع ضروری ہے‘ نیز رسول اللہﷺ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کی بجائے دو طلاقوں کا مشورہ نہ دے سکتے تھے۔ عقلاً اگرچہ یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے مگر متعلقہ احادیث کے الفاظ اور صحابہ وتابعین کے اقوال‘ نیز محدثین وفقہاء کے مذاہب اس کے خلاف ہیں۔ شاذ لوگ ہی اس طرف گئے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس عقلی مسلک کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔