كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ بَاب الْغَيْرَةِ صحيح حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْمِصِّيصِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ قَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَى قَالَتْ لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي فَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ لَا قَالَ لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُهُ أَمَامِي قَالَتْ نَعَمْ قَالَتْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَكْتُمْ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُ مِنْكِ فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ رَوَاهُ عَاصِمٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَائِشَةَ عَلَى غَيْرِ هَذَا اللَّفْظِ
کتاب: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان رشک اور جلن کا بیان حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا‘ انہو ں نے فرمایا: کیا میں تمہیں اپنا اور نبیﷺ کا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں! (ضرور بیان فرمائیں۔) تو انہوں نے فرمایا: ایک رات جب نبیﷺ نے میرے ہاں رات گزاری تھی‘ آپ (عشاء کی نماز پڑھ کر) تشریف لائے‘ آپ نے اپنے جوتے (اتار کر) چادر اتاری اور اپنے تہبند کا ایک کنارہ اپنے بستر پر بچھالیا۔ آپ اتنی دیر لیٹے رہے کہ آپ نے سمجھا کہ میں سوگئی ہوں (حالانکہ میں جاتی تھی)۔ پھر آپ نے چپکے سے جوتے پہنے ‘ آہشتہ سے چادر پکڑی‘ ہولے سے دروازہ کھول کر نکلے اور ہلکے سے دروازہ بند کردیا۔ میں نے قمیص پہنی‘ اورڑھنی لی اور تہبندباندھا اور آپ کے پیچھے چل دی‘ حتیٰ کہ آپ بقیع میں پہنچ گئے۔ آپ نے تین دفعہ (بار بار دعا کے لیے) اپنے ہاتھ اٹھائے اور بہت دیر تک کھڑے رہے‘ پھر آپ واپس مڑے‘ میں بھی مڑی‘ آپ کچھ تیز ہوئے تو میں بھی تیز ہولی‘ آپ بھاگنے لگے‘ میں بھاگنے لگی۔ آپ نے دوڑ لگادی‘ میں نے بھی دوڑ لگادی اور میں آپ سے پہلے گھر میں داخل ہوگئی۔ ابھی میں لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی پہنچ گئے اور فرمایا: ’’عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ تیرا پیٹ پھولا ہوا ہے اور سانس چڑھا ہوا ہے؟‘‘ میں نے کہا: کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے بتادے ورنہ باریک بین خبر رکھنے والا (اللہ) مجھے بتادے گا۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں‘ پھر میں نے آپ کو پورا واقعہ بتادیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا تو ہی وہ سایہ تھا جسے میں نے اپنے آگے آگے دیکھا؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے میرے سینے میں زور سے ہاتھ مارا کہ مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا تو نے سمجھا کہ اللہ اور ا س کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟‘‘ میں نے کہا: لوگ اللہ تعالیٰ سے جس قدر بھی بات چھپائیں‘ اللہ جان ہی لیتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بالکل۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’جب تو نے (مجھے اٹھتے) دیکھا تھا‘ اس وقت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے لیکن وہ اندر نہیں آسکتے تھے کیونکہ تو کپڑے اتار چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے تجھ سے چھپاتے ہوئے مجھے آہستہ سے آواز دی اور میں نے بھی تجھ سے چھپاتے ہوئے آہستہ سے آواز دی اور میں نے بھی تجھ سے چھپاتے ہوئے آہستہ سے جواب دیا۔ میرا خیال تھا کہ تو سوچکی ہے اور مجھے خطرہ تھا کہ (اگر تجھے جگادیا تو) اکیلی ڈرے گی۔ تو انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں بقیع والوں کے پاس جا کر ان کے لیے بخشش کی دعا کروں۔‘‘ اس روایت کو عاصم نے عن عبداللہ بن عامر عن عائشہ کی سند سے کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔