سنن النسائي - حدیث 3415

كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ بَاب الْغَيْرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَى قَالَتْ لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَبَسَطَ إِزَارَهُ عَلَى فِرَاشِهِ وَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي فَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ انْحَرَفَ وَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ وَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَكِ يَا عَائِشُ رَابِيَةً قَالَ سُلَيْمَانُ حَسِبْتُهُ قَالَ حَشْيَا قَالَ لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ قَالَ أَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ فَلَهَدَنِي لَهْدَةً فِي صَدْرِي أَوْجَعَتْنِي قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَكْتُمْ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ وَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ وَظَنَنْتُ أَنَّكِ قَدْ رَقَدْتِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ خَالَفَهُ حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَقَالَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3415

کتاب: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان رشک اور جلن کا بیان محمد بن قیس سے راویت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں نبیﷺ کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں؟ (ضرور بیان کریں۔) وہ فرمانے لگیں: ایک رات جب میری باری تھی تو آپ (عشاء کی نماز سے) واپس تشریف لائے تو اپنے جوتے اتار کر اپنے پاؤں کے قریب رکھ لیے‘ اپنی چادر اتاری اور اپنا تہ بند بستر پر بچھا لیا اور اتنی دیر لیٹے رہے کہ آپ نے سمجھا میں سوگئی ہوں‘ پھر آپ نے چپکے سے جوتے پہنے اور ہولے سے اپنی چادر اٹھائی اور ہلکے سے دروازہ کھول کر نکل گئے اور بغیر آہٹ کیے دروازہ بند کردیا۔ میں نے فوراً قمیص پہنی‘ اوڑھنی لی‘ تہبند کسا اور آپ کے پیچھے ہولی۔ یہاں تک کہ آپ بقیع الغرقد میں پہنچ گئے اور تین دفعہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے (اور دعا کی)‘ آپ بہت دیر کھڑے رہے‘ پھر آپ واپس مڑے تو میں بھی مڑی‘ آپ کچھ تیز ہوئے تو میں بھی تیز چلنے لگی‘ آپ بھاگنے لگے تو میں بھی بھاگی۔ پھر آپ نے دوڑ لگادی تو میں نے بھی دوڑ لگادی۔ اور میں آپ سے پہلے پہنچ گئی۔ میں حجرے میں داخل ہوکر ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ آپہنچے اور فرمایا: ’’عائشہ! تجھے کیا ہوا ہے؟ پیٹ پھولا ہوا ہے اور سانس چڑھا ہوا ہے؟ مجھے بتادے ورنہ باریک بین اور خبردار (اللہ) مجھے بتادے گا۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں‘ پھر میں نے آپ کو پوری بات بتادی۔ آپ نے فرمایا: ’’توہی وہ سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے آگے دیکھا؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے زور سے میرے سینے میں ہاتھ مارا جس سے مجھے سخت تکلیف ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو سمجھتی تھی کہ اللہ اور ا سکا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟‘‘ حضرت عائشہ نے کہا: لوگ جس قدر بھی بات چھپائیں اللہ تعالیٰ جان ہی لیتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بالکل۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’جب تو نے (مجھے اٹھتے) دیکھا تھا اس وقت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔ چونکہ تو کپڑے اتار چکی تھی‘ اس لیے وہ اندر انہیں آسکے تھے۔ انہوں نے تجھ سے چھپا کر مجھے آواز دی۔ میں نے بھی تجھ سے چھپا کر انہیں جواب دیا۔ میں سمجھتا تھا کہ تو سوچکی ہے‘ لہٰذا میں نے تجھے جگانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ مجھے خطرہ تھا کہ تو اکیلی ڈرے گی۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں بقیع والوں کے پاس جاؤں اور ان کے لیے بخشش کی دعا کروں۔‘‘ حجاج بن محمد نے (ا س حدیث کے راوی)ٌ ابن وہب کی مخالفت کی ہے۔ اس نے سند یوں بیان کی ہے: عن ابن جریج‘ عن ابن ابی ملکیہ‘ عن محمد بن قیس۔ (جب کہ ابن وہب نے ابن جریج اور محمد بن قیس کے درمیان عبداللہ بن کثیر کا واسطہ بیان کیا ہے۔)
تشریح : یہ روایت پیچھے تفصیلاً گزرچکی ہے۔ حدیث نمبر: ۲۰۳۹ دیکھیے۔ یہ روایت پیچھے تفصیلاً گزرچکی ہے۔ حدیث نمبر: ۲۰۳۹ دیکھیے۔