سنن النسائي - حدیث 3411

كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ بَاب الْغَيْرَةِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَرَمِيٌّ هُوَ لَقَبُهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ حَتَّى حَرَّمَهَا عَلَى نَفْسِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3411

کتاب: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان رشک اور جلن کا بیان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ صحبت کیا کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ آپ کو مجبور کرتی رہیں حتیٰ کہ آپ نے اسے اپنے لیے حرام کرلیا تو اللہ عزوجل نے یہ وحی اتاری: ]یٰآَیُّھَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ…[ ’’اے نبی! آپ اس چیز کو اپنے لیے حرام قراردے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے…‘‘ مکمل آیت۔
تشریح : (۱) سابقہ حدیث میں اس آیت کا سبب نزول شہد والے واقعے کو قراردیا گیا ہے اور اس حدیث میں لونڈی کو۔ ممکن ہے دونوں واقعات قریب ہوں‘ لہٰذا دونوں کو سبب نزول سمجھا جاسکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ باقی جزئیات بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔ دونوں واقعات میں حضرت عائشہؓ کا ذکر ہے۔ دونوں کا سبب غیرت ہے۔ دونوں میں آپ نے راز میں فرمایا تھا کہ میں دوبارہ استعمال نہ کروں گا لیکن کسی کو نہ بتانا‘ دونوں میں افشائے راز ہوا جیسا کی تفصیلی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ بہت سے محققین نے شہد والے کو ترجیح دی ہے۔ (۲) لونڈی کے لیے باری مقرر نہیں ہوتی۔ دل جوئی کے لیے قسم کھائی کہ اب یہ لونڈی مجھ پر حرام ہے۔ اسی طرح کی تفصیل فتح الباری‘ تفسیر سورئہ تحریم اور کئی دوسری کتب میں بھی موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس لونڈی کو آپ نے اپنے اوپر حرام قراردیا تھا‘ وہ ماریہ قبطیہؓ تھیں جو نبیﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم کی والدہ ماجدہ تھیں۔ ہوا یوں کہ حضرت ماریہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر گئی تھیں جبکہ حضرت حفصہ اس وقت تو خود گھر میں موجود نہ تھیں لیکن رسول اللہﷺ ان کے گھر میں موجود تھے کیونکہ یہ انہی کی باری کا دن تھا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ رسول اللہﷺ حضرت ماریہؓ کے ساتھ خلوت اختیار کیے ہوئے تھے کہ سیدہ حفصہ بھی آگئیں۔ انہیں نبیﷺ کا حضرت ماریہ کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوارگزرا‘ اسی بات کو خود رسول اللہﷺ نے بھی محسوس فرمایا۔ چنانچہ نبیﷺ نے حضرت حفصہؓ کی دل جوئی کی خاطر اور انہیں راضـی کرنے کے لیے قسم کھائی کہ ماریہ آج سے مجھ پر حرام ہے اور ساتھ ہی حضرت حفصہ کو فرمایا کہ اس بات کی خبر کسی کو نہ دینا۔ لیکن انہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو اس واقعے سے آگاہ کردیا۔ چنانچہ اس بات پر انہیں توبہ کرنے کی تنبیہ کی گئی۔ سورئہ تحریم کا ایک سبب نزول یہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (تفسیر احسن البیان‘ تفسیر سورئہ تحریم) ویسے بھی لونڈی کے ساتھ صحبت کرنے پر شرعاً کوئی پابندی ہے اور نہ اخلاقاً ہی یہ کوئی حرج والی یہ معیوب بات ہے‘ اس لیے نبیﷺ کا یہ فعل قطعاً قابل اعتراض نہیں ہے۔ علاوہ ازیں باری کا تعلق آزاد بیوی سے ہوتا ہے‘ اگرچہ آپ پر باری کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی لیکن پھر بھی آپ نے اپنے طور پر ازواج مطہراتf کی باریاں مقرر کررکھی تھیں۔ (۳) رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہؓ کی تالیف قلب کے لیے لونڈی کو حرام کرلیا مگر یہ شرعاً درست نہ تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصلاح فرمائی…ﷺ… اور راز افشا کرنے پر دونوں ازواج مطہراتؓ کو توبہ کی تلقین فرمائی۔ (۱) سابقہ حدیث میں اس آیت کا سبب نزول شہد والے واقعے کو قراردیا گیا ہے اور اس حدیث میں لونڈی کو۔ ممکن ہے دونوں واقعات قریب ہوں‘ لہٰذا دونوں کو سبب نزول سمجھا جاسکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ باقی جزئیات بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔ دونوں واقعات میں حضرت عائشہؓ کا ذکر ہے۔ دونوں کا سبب غیرت ہے۔ دونوں میں آپ نے راز میں فرمایا تھا کہ میں دوبارہ استعمال نہ کروں گا لیکن کسی کو نہ بتانا‘ دونوں میں افشائے راز ہوا جیسا کی تفصیلی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ بہت سے محققین نے شہد والے کو ترجیح دی ہے۔ (۲) لونڈی کے لیے باری مقرر نہیں ہوتی۔ دل جوئی کے لیے قسم کھائی کہ اب یہ لونڈی مجھ پر حرام ہے۔ اسی طرح کی تفصیل فتح الباری‘ تفسیر سورئہ تحریم اور کئی دوسری کتب میں بھی موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس لونڈی کو آپ نے اپنے اوپر حرام قراردیا تھا‘ وہ ماریہ قبطیہؓ تھیں جو نبیﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم کی والدہ ماجدہ تھیں۔ ہوا یوں کہ حضرت ماریہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر گئی تھیں جبکہ حضرت حفصہ اس وقت تو خود گھر میں موجود نہ تھیں لیکن رسول اللہﷺ ان کے گھر میں موجود تھے کیونکہ یہ انہی کی باری کا دن تھا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ رسول اللہﷺ حضرت ماریہؓ کے ساتھ خلوت اختیار کیے ہوئے تھے کہ سیدہ حفصہ بھی آگئیں۔ انہیں نبیﷺ کا حضرت ماریہ کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوارگزرا‘ اسی بات کو خود رسول اللہﷺ نے بھی محسوس فرمایا۔ چنانچہ نبیﷺ نے حضرت حفصہؓ کی دل جوئی کی خاطر اور انہیں راضـی کرنے کے لیے قسم کھائی کہ ماریہ آج سے مجھ پر حرام ہے اور ساتھ ہی حضرت حفصہ کو فرمایا کہ اس بات کی خبر کسی کو نہ دینا۔ لیکن انہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو اس واقعے سے آگاہ کردیا۔ چنانچہ اس بات پر انہیں توبہ کرنے کی تنبیہ کی گئی۔ سورئہ تحریم کا ایک سبب نزول یہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (تفسیر احسن البیان‘ تفسیر سورئہ تحریم) ویسے بھی لونڈی کے ساتھ صحبت کرنے پر شرعاً کوئی پابندی ہے اور نہ اخلاقاً ہی یہ کوئی حرج والی یہ معیوب بات ہے‘ اس لیے نبیﷺ کا یہ فعل قطعاً قابل اعتراض نہیں ہے۔ علاوہ ازیں باری کا تعلق آزاد بیوی سے ہوتا ہے‘ اگرچہ آپ پر باری کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی لیکن پھر بھی آپ نے اپنے طور پر ازواج مطہراتf کی باریاں مقرر کررکھی تھیں۔ (۳) رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہؓ کی تالیف قلب کے لیے لونڈی کو حرام کرلیا مگر یہ شرعاً درست نہ تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصلاح فرمائی…ﷺ… اور راز افشا کرنے پر دونوں ازواج مطہراتؓ کو توبہ کی تلقین فرمائی۔