سنن النسائي - حدیث 3410

كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ بَاب الْغَيْرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَا بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَلَنْ أَعُودَ لَهُ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا لِقَوْلِهِ بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3410

کتاب: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان رشک اور جلن کا بیان حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت زینب بنت حجشؓ کے پاس (کچھ زیادہ دیر) ٹھہرتے تھے کہ ان کے پاس شہید پیتے تھے۔ میں نے اور حفصہ نے منصوبہ بنایا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی رسول اللہﷺ تشریف لائیں وہ کہہ دے: میں آپ سے مغافیر کی بوپاتی ہوں۔ آپ نے مغافر کھایا ہے؟ پھر آپ ان دونوں میں سے کسی کے گھر تشریف لے گئے تو اس نے یہی کچھ آپ سے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں‘ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے‘ دوبارہ نہیں پیوں گا۔‘‘ پھر آپ پر یہ آیت اتری: ]یٰآَیُّھَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ…[ ’’اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے۔‘‘ آگے فرمایا: ]اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ[ ’’اگر تم توبہ کرو…الحخ۔‘‘ اس سے عائشہ اور حفصہ مراد ہیں۔ اور: ]وَاِذْ اَسَرَّالنَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثاً[ ’’جب نبی(ﷺ) نے ایک بیوی سے راز کی بات فرمائی۔‘‘ اس سے مراد آپ کافرمان: ’’بلکہ میں نے شہد پیا ہے…الخ‘‘ ہے۔
تشریح : (۱) ’’ٹھہرتے تھے‘‘ عصر کی نماز کے بعد رسول اللہﷺ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اپنی سب ازواج مطہراتf کے گھرو ںمیں تشریف لے جایا کرتے تھے کہ انہیں کوئی تکلیف ہو یا ضرورت ہو تو معلوم ہوجائے‘ نیز ہر ایے سے روزانہ رابطہ رہے۔ حضرت زینبؓ کے پاس شہید پینے کی وجہ سے زیادہ دیر لگ جاتی تھی جسے آپ کی دوسری بیویوں (عائشہ اور حفصہؓ) نے محسوس فرمایا اور روکنے کی تدبیر کی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر انہوں نے تدبیر درست نہیں کی جس میں خلاف واقعہ بات کرنا پڑی۔ تبھی تو یہ حکم دیا گیا۔ (۲) ’’مغافیر‘‘ یہ گوند سی ایک چیز ہے جو گل جیسے درخت سے نکلتی ہے۔ ا س کا ذائقہ تو میٹھا ہوتا ہے مگر بوقبیح ہوتی ہے۔ کھانے والے کے منہ سے بعد میں بھی بو محسوس ہوتی ہے۔ اور آپ کو بدبو سے سخت نفرت تھی‘ لہٰذا آپ نے شہد نہ پینے کا فیصلہ فرمالیا۔ لیکن چونکہ ان ازواج مطہراتf نے اس مقصد کے لیے غلط طریقہ اختیار کیا تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہد کا استعمال جاری رکھنے کاحکم فرمایا۔ (۳) ’’اگر تم توبہ کرو‘‘ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔ ازواج مطہراتf معصوم نہیں تھیں۔ ان سے یہ غلطی ہوئی‘ پھر انہوں نے توبہ کرلی اور حدیث شریف میں ہے ]اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہُ[ (صحیح الجامع الصغیر‘ حدیث: ۳۰۰۸) توبہ سے گناہ ختم ہوجاتا ہے‘ لہٰذا ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا بلکہ توبہ کرلینا ان کی فضیلت ہے۔ (۴) ’’راز کی بات‘‘ آپ نے فرمایا تھا: ’’مں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا لیکن تم کسی سے ذکر نہ کرنا‘‘ مگر حضرت حفصہ سے غلطی ہوگئی کہ انہوں نے یہ بات حضرت عائشہؓ سے ذکر کردی۔ اسی لیے انہیں توبہ کرنے کی تلقین کی گئی اور انہوں نے توبہ کرلی۔ (۱) ’’ٹھہرتے تھے‘‘ عصر کی نماز کے بعد رسول اللہﷺ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اپنی سب ازواج مطہراتf کے گھرو ںمیں تشریف لے جایا کرتے تھے کہ انہیں کوئی تکلیف ہو یا ضرورت ہو تو معلوم ہوجائے‘ نیز ہر ایے سے روزانہ رابطہ رہے۔ حضرت زینبؓ کے پاس شہید پینے کی وجہ سے زیادہ دیر لگ جاتی تھی جسے آپ کی دوسری بیویوں (عائشہ اور حفصہؓ) نے محسوس فرمایا اور روکنے کی تدبیر کی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر انہوں نے تدبیر درست نہیں کی جس میں خلاف واقعہ بات کرنا پڑی۔ تبھی تو یہ حکم دیا گیا۔ (۲) ’’مغافیر‘‘ یہ گوند سی ایک چیز ہے جو گل جیسے درخت سے نکلتی ہے۔ ا س کا ذائقہ تو میٹھا ہوتا ہے مگر بوقبیح ہوتی ہے۔ کھانے والے کے منہ سے بعد میں بھی بو محسوس ہوتی ہے۔ اور آپ کو بدبو سے سخت نفرت تھی‘ لہٰذا آپ نے شہد نہ پینے کا فیصلہ فرمالیا۔ لیکن چونکہ ان ازواج مطہراتf نے اس مقصد کے لیے غلط طریقہ اختیار کیا تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہد کا استعمال جاری رکھنے کاحکم فرمایا۔ (۳) ’’اگر تم توبہ کرو‘‘ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔ ازواج مطہراتf معصوم نہیں تھیں۔ ان سے یہ غلطی ہوئی‘ پھر انہوں نے توبہ کرلی اور حدیث شریف میں ہے ]اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہُ[ (صحیح الجامع الصغیر‘ حدیث: ۳۰۰۸) توبہ سے گناہ ختم ہوجاتا ہے‘ لہٰذا ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا بلکہ توبہ کرلینا ان کی فضیلت ہے۔ (۴) ’’راز کی بات‘‘ آپ نے فرمایا تھا: ’’مں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا لیکن تم کسی سے ذکر نہ کرنا‘‘ مگر حضرت حفصہ سے غلطی ہوگئی کہ انہوں نے یہ بات حضرت عائشہؓ سے ذکر کردی۔ اسی لیے انہیں توبہ کرنے کی تلقین کی گئی اور انہوں نے توبہ کرلی۔