سنن النسائي - حدیث 3407

كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ بَاب الْغَيْرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسٌ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فَأَرْسَلَتْ أُخْرَى بِقَصْعَةٍ فِيهَا طَعَامٌ فَضَرَبَتْ يَدَ الرَّسُولِ فَسَقَطَتْ الْقَصْعَةُ فَانْكَسَرَتْ فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِسْرَتَيْنِ فَضَمَّ إِحْدَاهُمَا إِلَى الْأُخْرَى فَجَعَلَ يَجْمَعُ فِيهَا الطَّعَامَ وَيَقُولُ غَارَتْ أُمُّكُمْ كُلُوا فَأَكَلُوا فَأَمْسَكَ حَتَّى جَاءَتْ بِقَصْعَتِهَا الَّتِي فِي بَيْتِهَا فَدَفَعَ الْقَصْعَةَ الصَّحِيحَةَ إِلَى الرَّسُولِ وَتَرَكَ الْمَكْسُورَةَ فِي بَيْتِ الَّتِي كَسَرَتْهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3407

کتاب: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان رشک اور جلن کا بیان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک ام المومنین کے پاس تھے رو دوسری ام المومنین نے ایک پیالے میں کوئی خوردنی چیز بھیجی۔ چنانچہ اس (پہلی ام المومنین) نے قاصد کے ہاتھ پر ضرب لگائی تو پیالہ گر کر ٹوٹ گیا۔ نبیﷺ نے دونوں ٹکڑے اٹھائے‘ ایک کو دوسرے کے ساتھ جوڑا اور کھانا اکٹھا کرکے اس میں ڈالنے لگے اور فرمارہے تھے: ’’تمہاری ماں کو غیرت آگئی‘ کھاؤ۔‘‘ سب نے ملک کر کھانا کھایا‘ پھر توڑنے والی ام المومنین اپنا پیالہ لائیں۔ آپ نے صحیح پیالہ قاصد کو دے دیا اور ٹوٹا ہوا توڑنے والی کے گھر رہنے دیا۔
تشریح : (۱) سوکنوں میں اس قسم کی غیرت قابل درگزر ہوتی ہے بلکہ یہ غیرت خاوند سے سچی محبت کا ثبوت ہوتی ہے‘ نیز اپنے حق کے حصول کے لیے غیرت جائز ہے۔ اپنی باری کے دن دوسری بیوی کی مداخلت برداشت نہے کرنا اپنے حق کی حفاظت ہے‘ لہٰذا مذکورہ واقعہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ غَارَتْ أُمُّکُمْ فرماکر عذر پیش فرمایا۔ البتہ نقصان پورا کرنا ہوگا۔ (۲) ممکن ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو ایک قسم کے پیالے لے کر دیے جیسا کہ مساوات کا تقاضا ہے‘ لہٰذا آپ نے پیالہ ٹوٹنے پر اس جیسا پیالہ واپس فرمایا۔ ویسے بھی دونوں پیالے آپ کی ملکیت تھے۔ اپنی ملکیت میں آدمی خود مختار ہوتا ہے۔ (۳) آپ کی ہر زوجئہ مطہرہ کو احتراماً ام المومنین (مومنوں کی ماں) کہاجاتا ہے‘ خواہ وہ عمر میں چھوٹی ہو۔ (۱) سوکنوں میں اس قسم کی غیرت قابل درگزر ہوتی ہے بلکہ یہ غیرت خاوند سے سچی محبت کا ثبوت ہوتی ہے‘ نیز اپنے حق کے حصول کے لیے غیرت جائز ہے۔ اپنی باری کے دن دوسری بیوی کی مداخلت برداشت نہے کرنا اپنے حق کی حفاظت ہے‘ لہٰذا مذکورہ واقعہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ غَارَتْ أُمُّکُمْ فرماکر عذر پیش فرمایا۔ البتہ نقصان پورا کرنا ہوگا۔ (۲) ممکن ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو ایک قسم کے پیالے لے کر دیے جیسا کہ مساوات کا تقاضا ہے‘ لہٰذا آپ نے پیالہ ٹوٹنے پر اس جیسا پیالہ واپس فرمایا۔ ویسے بھی دونوں پیالے آپ کی ملکیت تھے۔ اپنی ملکیت میں آدمی خود مختار ہوتا ہے۔ (۳) آپ کی ہر زوجئہ مطہرہ کو احتراماً ام المومنین (مومنوں کی ماں) کہاجاتا ہے‘ خواہ وہ عمر میں چھوٹی ہو۔