سنن النسائي - حدیث 3399

كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ حُبُّ الرَّجُلِ بَعْضَ نِسَائِهِ أَكْثَرَ مِنْ بَعْضٍ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ مُرَّةَ الْجُهَنِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3399

کتاب: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان آدمی کا اپنی کسی ایک بیوی کو دوسری سے زیادہ چاہنا حضرت ابوموسیٰـ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’عائشہؓ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسے ہے جیسے ترید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر۔‘‘
تشریح : ثرید جلدی تیار ہونے والا‘ جلدی ہضم ہونے والا اور لذیذ کھانا ہے۔ حضرت عائشہؓ کا علم ثرید کی طرح امت کے لیے سہل الحصول‘ مفید‘ مسکت اور خوشگوار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کے علم نے امت کو فائدہ دیا کہ دوسری تمام عورتوں کے علم نے اس کا عشرعشیر بھی فائدہ نہ دیا۔ حافظہ‘ ذہانت‘ فطانت‘ معاملہ فہمی‘ فصاحت وبلاغت اور تعلیم وخطابت میں مرد بھی ان کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہَا۔ البتہ اس روایت سے حضرت عائشہؓ کو افضل ثابت نہ کیا جاسکے گا کیونکہ یہ فضیلت جزوی ہے ورنہ ثرید من کل الوجوہ سب کھانوں سے اعلیٰ نہیں۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں میں سے افضل آپ کی پہلی اور محترم بیوی حضرت خدیجہؓ ہیں جنہیں آپ نے خیر نسائھا فرمایا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری‘ احادیث الانبیاء‘ باب: {وَاِذَا قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ}‘ حدیث: ۳۴۴۲‘ وصحیح مسلم‘ فضائل الصحابۃ‘ باب من فضائل خدیجۃ‘ حدیث: ۲۴۳۰) آپ انہیں زندگی کے آخری لمحات تک نہ بھول سکے۔ نبیﷺ سے وفاداری‘ حسن سلوک‘ جانثاری اور محبت میں وہ آپ کی تمام ازواج مطہراتf سے بہت آگے تھیں۔ اخلاق عالیہ اور ملکات فاضلہ میں بھی ان کا مقام بہت اونچا تھا۔ رسول اللہﷺ نے خود فرمایا: ]اِنَّھَا کَانَتْ وَکَانَتْ[ ’’وہ تو وہ تھیں‘‘ یعنی ان میں یہ یہ خوبیاں اور کمالات تھے۔ (صحیح البخاری‘ مناقب الانصار‘ باب تزویج النبیﷺ خدیجۃ وفضلھاؓ‘ حدیث: ۳۸۱۸) ثرید جلدی تیار ہونے والا‘ جلدی ہضم ہونے والا اور لذیذ کھانا ہے۔ حضرت عائشہؓ کا علم ثرید کی طرح امت کے لیے سہل الحصول‘ مفید‘ مسکت اور خوشگوار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کے علم نے امت کو فائدہ دیا کہ دوسری تمام عورتوں کے علم نے اس کا عشرعشیر بھی فائدہ نہ دیا۔ حافظہ‘ ذہانت‘ فطانت‘ معاملہ فہمی‘ فصاحت وبلاغت اور تعلیم وخطابت میں مرد بھی ان کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہَا۔ البتہ اس روایت سے حضرت عائشہؓ کو افضل ثابت نہ کیا جاسکے گا کیونکہ یہ فضیلت جزوی ہے ورنہ ثرید من کل الوجوہ سب کھانوں سے اعلیٰ نہیں۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں میں سے افضل آپ کی پہلی اور محترم بیوی حضرت خدیجہؓ ہیں جنہیں آپ نے خیر نسائھا فرمایا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری‘ احادیث الانبیاء‘ باب: {وَاِذَا قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ}‘ حدیث: ۳۴۴۲‘ وصحیح مسلم‘ فضائل الصحابۃ‘ باب من فضائل خدیجۃ‘ حدیث: ۲۴۳۰) آپ انہیں زندگی کے آخری لمحات تک نہ بھول سکے۔ نبیﷺ سے وفاداری‘ حسن سلوک‘ جانثاری اور محبت میں وہ آپ کی تمام ازواج مطہراتf سے بہت آگے تھیں۔ اخلاق عالیہ اور ملکات فاضلہ میں بھی ان کا مقام بہت اونچا تھا۔ رسول اللہﷺ نے خود فرمایا: ]اِنَّھَا کَانَتْ وَکَانَتْ[ ’’وہ تو وہ تھیں‘‘ یعنی ان میں یہ یہ خوبیاں اور کمالات تھے۔ (صحیح البخاری‘ مناقب الانصار‘ باب تزویج النبیﷺ خدیجۃ وفضلھاؓ‘ حدیث: ۳۸۱۸)