سنن النسائي - حدیث 3394

كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ مَيْلُ الرَّجُلِ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ امْرَأَتَانِ يَمِيلُ لِإِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَدُ شِقَّيْهِ مَائِلٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3394

کتاب: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان آدمی کا اپنی کسی ایک بیوی کی طرف دوسری کی نسبت زیادہ جھکاؤ رکھنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کی دوبیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہو تو قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔‘‘
تشریح : (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انہی کی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الموسوعۃ الحدیثیہ‘ مسند الامام احمد: ۱۳،/ ۳۲۰،۳۲۱‘ وارواء الغلیل: ۷/۸۰‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد‘ حدیث: ۱۹۶۹‘ وذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۸/ ۱۷۸) (۲) اعمال کی جزااعمال کے مشابہ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس شخص نے دنیا میں جانبداری کا رویہ قائم رکھا‘ لہٰذا قیامت کے دن ا س کی ایک جانب مفلوج ہوگی۔ اس جھکاؤ سے مراد دلی جھکاؤ نہیں بلکہ ظاہری سلوک (مثلاً باری‘ نفقہ وغیرہ) میں جھکاؤ ہے کیونکہ دل کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ بہت سے دلی معاملات میں انسان بے بس ہوتا ہے‘ لہٰذا اس پر گرفت نہیں ہوگی (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انہی کی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الموسوعۃ الحدیثیہ‘ مسند الامام احمد: ۱۳،/ ۳۲۰،۳۲۱‘ وارواء الغلیل: ۷/۸۰‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد‘ حدیث: ۱۹۶۹‘ وذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۸/ ۱۷۸) (۲) اعمال کی جزااعمال کے مشابہ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس شخص نے دنیا میں جانبداری کا رویہ قائم رکھا‘ لہٰذا قیامت کے دن ا س کی ایک جانب مفلوج ہوگی۔ اس جھکاؤ سے مراد دلی جھکاؤ نہیں بلکہ ظاہری سلوک (مثلاً باری‘ نفقہ وغیرہ) میں جھکاؤ ہے کیونکہ دل کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ بہت سے دلی معاملات میں انسان بے بس ہوتا ہے‘ لہٰذا اس پر گرفت نہیں ہوگی