سنن النسائي - حدیث 3386

كِتَابُ النِّكَاحِ جِهَازُ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا نَصِيرُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ زَائِدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3386

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل آدمی کا اپنی بیٹی کو (رخصتی کے موقع پر کچھ) سامان دینا حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (اپنی پیاری بیٹی) فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ایک چادر‘ ایک مشکیزہ اور ایک سرہانہ جس میں اذخر کی گھاس بھری ہوئی تھی‘ (رخصتی کے موقع پر) ساتھ دیے تھے۔
تشریح : جَھَّزَ یُجَھِّزُ تَجْھِیْزًا کے معنی ہوتے ہیں: (موقع کے مطابق) سامان تیار کرنا۔ تجھیز کی جگہ جَھَازَ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ دونوں باب تفعیل کا صدر ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے یہاں جَھَازَ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں بھی جَھَازَ کا لفظ بمعنی آسان آیا ہے۔ {فَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ} (یوسف۱۲:۷۰) ’’جب یوسف علیہ السلام کے کارندوں نے) برادران یوسف کا (واپسی کا) سامان سفر تیار کردیا۔‘‘ اسی طرح جَھَازَ الْعُرُوْس‘ جَھَازُ السَّفَرَ‘ جَھَازَ الغَازیی وغیرہ تراکیب ہیں‘ دلھن کو تیار کرنا‘ میت کا سامان تیار کرنا‘ سفر کا سامان اور غازی کا سامان (اسلحہ وغیرہ) تیارکرنا اور میدان جنگ میں انہیں ساتھ لے جانا وغیرہ۔ احادیث میں اس لفظ کا استعمال غالباً دو مفہوم میں ہوا ہے۔ ایک‘ رخصتی کے موقع پر باپ کا اپنی بچی کو نیا گھر بسانے کے لیے کچھ سامانِ ضرورت دینا۔ دوسرا‘ دلھن کو شبِ زفاف کے لیے تیار کرنا‘ یا دلھن بنانے کے لیے اسے عمدہ لباس وغیرہ سے آراستہ کرنا۔ احادیث میں سنن نسائی کی ایک حدیث کے علاوہ مزید دو جگہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک اس حدیث میں جس میں ذکر ہے کہ نجاشی (شاہِ حبشہ) کی طرف سے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کو‘ ان کا نکاح بذریعہ وکالت نبیﷺ کے ساتھ کرکے‘ نبیﷺ کی طرف ایک صحابی حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا۔ اس حدیث میں آتا ہے: ]ثُمَّ جَھَّزَھَا مِنْ عِنْدِہٖ وَبَعَثَ بِھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ … وَجَھَازُھَا کُلٌّ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِییِّ[ ’’پھر نجاشی نے حضرت ام حبیبہ کو اپنے پاس سے تیار کیا اور اسے رسول اللہﷺ کی طرف بھیج دیا… اور ان کی ساری تیاری (یا ان کا سارا سامان) نجاشی کی طرف سے تھا۔‘‘ (سنن النسائی‘ النکاح‘ حدیث: ۳۳۵۲‘ ومسند احمد: ۶/۴۲۷ واللفظ لہ) یہاں ’تجھیز‘‘ اور ’’جَھَازَ‘‘ دلھن سازی یا حق مہر سمیت دیگر سامان ضرورت کی فراہمی کے مفہوم میں ہے کیونکہ اسی حدیث میں یہ صراحت ہے کہ نجاشی نے چار ہزار درہم بھی بطور حق مہر حضرت ام حبیبہ کو دیے تھے‘ اس لیے یہاں احتمال ہے کہ یہاں یہ لفظ دونوں مفہوموں کو متضمن ہو۔ الفاظ حدیث دونوں مفہوموں کی تائید کرتے ہیں۔ دوسری جگہ یہ لفظ اس حدیث میں استعمال ہوا ہے جس میں جنگِ خیبر سے واپسی پر رسول اللہﷺنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو آزاد کرکے ان سے نکاح فرمالیا تھا‘ اس میں آتا ہے: ]جَھَّزَتُھَا لَہُ أُمُّ سُلَیْمٍ فَأَھْدَتْھَا لَہُ مِنَ الَّیَلِ[ ’’حضرت ام سلیمؓ نے حضرت صفیہ کو تیار کیا اور رات کو انہیں شب باشی کے لیے نبیﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الصلاۃ باب مایاذکر فی الفخذ‘ حدیث: ۳۷۱) یہاں یہ لفظ دلھن سازی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سنن نسائی کی زیر بحث حدیث میں یہ لفظ پہلے مفہوم میں‘ یعنی شادی کے موقع پر کچھ سامان ضرورت دے کر رخصت کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس مختصر تفصیل کے پیش نظر کرنے سے اصل مقصود یہ ہے کہ ہمارے ہاں جوجہیز کا عام رواج ہے‘ اس کے جواز کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ واقعے سے استدلال کیا جاتا ہے‘ حالانکہ اس واقعے کی اصل حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبیﷺ ہی کی زیر کفالت تھے‘ ان کا نہ گھر بار تھا اور نہ کوئی ذریعئہ آمدنی‘ اس لیے رسول اللہﷺ نے ان کی اس حالت کے پیش نظر اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو وہ چند چیزیں عنایت فرمائیں جن کا ذکر حدیث میں ہے۔ اس کا کوئی تعلق موجودہ جہیزسے نہیں ہے۔ موجودہ جہیز کی صورت تو یہ ہے کہ بچی کی شادی کے موقع پر جہیز کو لازمی چیز بنالیا گیا ہے‘ چاہے کسی کے وسائل ا س کے متحمل ہوں یا نہ ہوں‘ پھر ضروریات کے علاوہ تمام تمدنی سہولتوں اور آسائشوں تک اسے وسیع کردیا گیا ہے۔ تیسرے اسے ہندوؤں کی طرح وراثت کے قائم مقام بنالیا گیا ہے اور ا س کی بنیاد پر بہت سے لوگ عورتوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیتے۔ چوتھے‘ جو بچی بغیر جہیز کے سسرال جاتی ہے تو سسرال والے اس کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ جبکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ بچی جس گھرانے میں جارہی ہو وہ اتنے غریب اور بے وسائل ہوں کہ وہاں ضروریاتِ زندگی کا بھی فقدان ہو‘ تو گھر بسانے کے لیے بچی کو وہ سامان دے دینا جس سے نئے گھر کی ضروریات پوری ہوجائیں‘ یہ نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور ت عاون علی البرو التقویٰ ہے۔ موجودہ رسم جہیز میں تعاون اور ہمدردی کایہ جذبہ قطعاً نہیں ہوتا۔ اگر یہ حذبہ ہو تو شادی کے موقع پر داماد کو وہ چیزیں دیں جن کی واقعی اسے ضرورت ہو‘ مثلاً: اس کا کاروبار تسلی بخش نہیں ہے تو اس کو مالی تعاون پیش کیا جائے تاکہ اس کاکاروبار مستحکم ہوسکے‘ اس کے پاس رہائش نہیں ہے یا ناکافی ہے تو اسے مکان یا کم از کم اپنی حیثیت کے مطابق پلاٹ لے کر دے دیا جائے یا اسی انداز کا کوئی تعاون کیا جائے جس سے اس کو اپنا مستقبل بہتر بنانے میں مدد ملے‘ لیکن اس طرح کوئی نہیں کرتا اس کے برعکس لاکھوں روپے جہیز کی نذر کردیے جاتے ہیں جسے بعض اوقات رکھنے اور سنبھالنے کے لیے جگہ بھی نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے جہیز کی موجودہ رسم کا نہ کوئی جواز ہے اور حضرت فاطمہؓ کے واقعے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ صورت میں یہ رسم سراسر غیر شرعی اور ہندؤں کی نقالی ہے جس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ واللہ ھو الموفق المعین۔ اور یہ تو ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ لڑکی والوں سے اپنی پسند اور خواہش کے مطابق جہیز کا مطالبہ کیا جائے‘ حالانکہ لڑکی کے ماں باپ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ وہ بچی کو نازونعمت میں پال کے اور اسے تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے اللہ کے حکم کی وجہ سے اپنے دل کے ٹکڑے کو دوسروں کے سپرد کردیتے ہیں۔ اس احسان مندی کے بجائے ان سے مطالبات کے ذریعے سے احسان فراموشی کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم احسان کے بدلے احسان کرنے کا ہے نہ کہ محسن کے لیے عرصئہ حیات تنگ کرنے کا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام (عورت کا محافظ‘ نگران اور بالادست) بنایا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عورت کی مالی ضروریات پوری کرتا ہے‘ مرد اپنے اس مقام ومرتبہ کو فراموش کرکے عورت سے لینے کا مطالبہ کرتا ہے جو ظاہر بات ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے سبب فضیلت {وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ} کے بھی خلاف اور اس کے شیوئہ مردانگی کے بھی منافی ہے۔ بہر حال جس حیثیت سے بھی اس رسم کو دیکھا جائے‘ اس کی قباحت وشناعت واضح ہوجاتی ہے۔ جَھَّزَ یُجَھِّزُ تَجْھِیْزًا کے معنی ہوتے ہیں: (موقع کے مطابق) سامان تیار کرنا۔ تجھیز کی جگہ جَھَازَ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ دونوں باب تفعیل کا صدر ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے یہاں جَھَازَ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں بھی جَھَازَ کا لفظ بمعنی آسان آیا ہے۔ {فَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ} (یوسف۱۲:۷۰) ’’جب یوسف علیہ السلام کے کارندوں نے) برادران یوسف کا (واپسی کا) سامان سفر تیار کردیا۔‘‘ اسی طرح جَھَازَ الْعُرُوْس‘ جَھَازُ السَّفَرَ‘ جَھَازَ الغَازیی وغیرہ تراکیب ہیں‘ دلھن کو تیار کرنا‘ میت کا سامان تیار کرنا‘ سفر کا سامان اور غازی کا سامان (اسلحہ وغیرہ) تیارکرنا اور میدان جنگ میں انہیں ساتھ لے جانا وغیرہ۔ احادیث میں اس لفظ کا استعمال غالباً دو مفہوم میں ہوا ہے۔ ایک‘ رخصتی کے موقع پر باپ کا اپنی بچی کو نیا گھر بسانے کے لیے کچھ سامانِ ضرورت دینا۔ دوسرا‘ دلھن کو شبِ زفاف کے لیے تیار کرنا‘ یا دلھن بنانے کے لیے اسے عمدہ لباس وغیرہ سے آراستہ کرنا۔ احادیث میں سنن نسائی کی ایک حدیث کے علاوہ مزید دو جگہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک اس حدیث میں جس میں ذکر ہے کہ نجاشی (شاہِ حبشہ) کی طرف سے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کو‘ ان کا نکاح بذریعہ وکالت نبیﷺ کے ساتھ کرکے‘ نبیﷺ کی طرف ایک صحابی حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا۔ اس حدیث میں آتا ہے: ]ثُمَّ جَھَّزَھَا مِنْ عِنْدِہٖ وَبَعَثَ بِھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ … وَجَھَازُھَا کُلٌّ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِییِّ[ ’’پھر نجاشی نے حضرت ام حبیبہ کو اپنے پاس سے تیار کیا اور اسے رسول اللہﷺ کی طرف بھیج دیا… اور ان کی ساری تیاری (یا ان کا سارا سامان) نجاشی کی طرف سے تھا۔‘‘ (سنن النسائی‘ النکاح‘ حدیث: ۳۳۵۲‘ ومسند احمد: ۶/۴۲۷ واللفظ لہ) یہاں ’تجھیز‘‘ اور ’’جَھَازَ‘‘ دلھن سازی یا حق مہر سمیت دیگر سامان ضرورت کی فراہمی کے مفہوم میں ہے کیونکہ اسی حدیث میں یہ صراحت ہے کہ نجاشی نے چار ہزار درہم بھی بطور حق مہر حضرت ام حبیبہ کو دیے تھے‘ اس لیے یہاں احتمال ہے کہ یہاں یہ لفظ دونوں مفہوموں کو متضمن ہو۔ الفاظ حدیث دونوں مفہوموں کی تائید کرتے ہیں۔ دوسری جگہ یہ لفظ اس حدیث میں استعمال ہوا ہے جس میں جنگِ خیبر سے واپسی پر رسول اللہﷺنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو آزاد کرکے ان سے نکاح فرمالیا تھا‘ اس میں آتا ہے: ]جَھَّزَتُھَا لَہُ أُمُّ سُلَیْمٍ فَأَھْدَتْھَا لَہُ مِنَ الَّیَلِ[ ’’حضرت ام سلیمؓ نے حضرت صفیہ کو تیار کیا اور رات کو انہیں شب باشی کے لیے نبیﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الصلاۃ باب مایاذکر فی الفخذ‘ حدیث: ۳۷۱) یہاں یہ لفظ دلھن سازی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سنن نسائی کی زیر بحث حدیث میں یہ لفظ پہلے مفہوم میں‘ یعنی شادی کے موقع پر کچھ سامان ضرورت دے کر رخصت کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس مختصر تفصیل کے پیش نظر کرنے سے اصل مقصود یہ ہے کہ ہمارے ہاں جوجہیز کا عام رواج ہے‘ اس کے جواز کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ واقعے سے استدلال کیا جاتا ہے‘ حالانکہ اس واقعے کی اصل حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبیﷺ ہی کی زیر کفالت تھے‘ ان کا نہ گھر بار تھا اور نہ کوئی ذریعئہ آمدنی‘ اس لیے رسول اللہﷺ نے ان کی اس حالت کے پیش نظر اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو وہ چند چیزیں عنایت فرمائیں جن کا ذکر حدیث میں ہے۔ اس کا کوئی تعلق موجودہ جہیزسے نہیں ہے۔ موجودہ جہیز کی صورت تو یہ ہے کہ بچی کی شادی کے موقع پر جہیز کو لازمی چیز بنالیا گیا ہے‘ چاہے کسی کے وسائل ا س کے متحمل ہوں یا نہ ہوں‘ پھر ضروریات کے علاوہ تمام تمدنی سہولتوں اور آسائشوں تک اسے وسیع کردیا گیا ہے۔ تیسرے اسے ہندوؤں کی طرح وراثت کے قائم مقام بنالیا گیا ہے اور ا س کی بنیاد پر بہت سے لوگ عورتوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیتے۔ چوتھے‘ جو بچی بغیر جہیز کے سسرال جاتی ہے تو سسرال والے اس کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ جبکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ بچی جس گھرانے میں جارہی ہو وہ اتنے غریب اور بے وسائل ہوں کہ وہاں ضروریاتِ زندگی کا بھی فقدان ہو‘ تو گھر بسانے کے لیے بچی کو وہ سامان دے دینا جس سے نئے گھر کی ضروریات پوری ہوجائیں‘ یہ نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور ت عاون علی البرو التقویٰ ہے۔ موجودہ رسم جہیز میں تعاون اور ہمدردی کایہ جذبہ قطعاً نہیں ہوتا۔ اگر یہ حذبہ ہو تو شادی کے موقع پر داماد کو وہ چیزیں دیں جن کی واقعی اسے ضرورت ہو‘ مثلاً: اس کا کاروبار تسلی بخش نہیں ہے تو اس کو مالی تعاون پیش کیا جائے تاکہ اس کاکاروبار مستحکم ہوسکے‘ اس کے پاس رہائش نہیں ہے یا ناکافی ہے تو اسے مکان یا کم از کم اپنی حیثیت کے مطابق پلاٹ لے کر دے دیا جائے یا اسی انداز کا کوئی تعاون کیا جائے جس سے اس کو اپنا مستقبل بہتر بنانے میں مدد ملے‘ لیکن اس طرح کوئی نہیں کرتا اس کے برعکس لاکھوں روپے جہیز کی نذر کردیے جاتے ہیں جسے بعض اوقات رکھنے اور سنبھالنے کے لیے جگہ بھی نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے جہیز کی موجودہ رسم کا نہ کوئی جواز ہے اور حضرت فاطمہؓ کے واقعے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ صورت میں یہ رسم سراسر غیر شرعی اور ہندؤں کی نقالی ہے جس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ واللہ ھو الموفق المعین۔ اور یہ تو ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ لڑکی والوں سے اپنی پسند اور خواہش کے مطابق جہیز کا مطالبہ کیا جائے‘ حالانکہ لڑکی کے ماں باپ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ وہ بچی کو نازونعمت میں پال کے اور اسے تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے اللہ کے حکم کی وجہ سے اپنے دل کے ٹکڑے کو دوسروں کے سپرد کردیتے ہیں۔ اس احسان مندی کے بجائے ان سے مطالبات کے ذریعے سے احسان فراموشی کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم احسان کے بدلے احسان کرنے کا ہے نہ کہ محسن کے لیے عرصئہ حیات تنگ کرنے کا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام (عورت کا محافظ‘ نگران اور بالادست) بنایا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عورت کی مالی ضروریات پوری کرتا ہے‘ مرد اپنے اس مقام ومرتبہ کو فراموش کرکے عورت سے لینے کا مطالبہ کرتا ہے جو ظاہر بات ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے سبب فضیلت {وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ} کے بھی خلاف اور اس کے شیوئہ مردانگی کے بھی منافی ہے۔ بہر حال جس حیثیت سے بھی اس رسم کو دیکھا جائے‘ اس کی قباحت وشناعت واضح ہوجاتی ہے۔