سنن النسائي - حدیث 3382

كِتَابُ النِّكَاحِ الْبِنَاءُ فِي السَّفَرِ صحيح أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا الْغَدَاةَ بِغَلَسٍ فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ فَأَخَذَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَأَرَى بَيَاضَ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ فَقَالُوا مُحَمَّدٌ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَالْخَمِيسُ وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجَمَعَ السَّبْيَ فَجَاءَ دِحْيَةُ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ قَالَ اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ قَالَ ادْعُوهُ بِهَا فَجَاءَ بِهَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خُذْ جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ غَيْرَهَا قَالَ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ يَا أَبَا حَمْزَةَ مَا أَصْدَقَهَا قَالَ نَفْسَهَا أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا قَالَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا إِلَيْهِ مِنْ اللَّيْلِ فَأَصْبَحَ عَرُوسًا قَالَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ قَالَ وَبَسَطَ نِطَعًا فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالْأَقِطِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ فَحَاسُوا حَيْسَةً فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3382

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل رخصتی دورانِ سفر میں بھی ہوسکتی ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خیبر کی لڑائی کے لیے گئے۔ ہم نے صبح کی نماز خیبر (کی بستی) کے قریب اندھیرے (اول وقت) میں ادا کی‘ پھر نبیﷺ سوار ہوئے اور حضرت ابوطلحہ بھی سوار ہوئے‘ جبکہ ان کے پیچھے میں بیٹھا تھا۔ خیبر کی گلیوں میں اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی سواری کو تیز کردیا۔ (سواری کے دوڑتے وقت) میرا گھٹنا رسول اللہﷺ کی ران مبارک سے چھوجاتا تھا؟ (کہ ہوا کی وجہ سے آپ کی ران سے چادر ہٹ گئی) اور مجھے رسول اللہﷺ کی ران مبارک کی سفیدی نظر آنے لگی۔ جب آپ بستی خیبر میں داخل ہوئے تو آپ نے (بآواز بلند) فرمایا: ’’اللہ اکبر! خیبر ویران ہوا۔ بلاشبہ ہم جب کسی قوم کے آنگن میں پڑاؤ کرتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بڑی لولناک ہوتی ہے جو (قبل ازیں) متنبہ کیے گئے ہوں۔‘‘ آپ نے تین دفعہ یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ خیبر کے لوگ اس وقت اپنے کام کاج کے لیے نکلے۔ عبدالعزیز نے کہا: خیبر والے کہنے لگے: محمد (آگئے۔) عبدالعزیز نے کہا‘ اور ہمارے بعض ساتھیوں کے الفاظ ہیں کہ (خیبر والوں نے کہا:) محمد اور اس کا لشکر آگیا۔ (حضرت انس نے کہا:) اور ہم نے خیبر بزور شمشیر فتح کیا‘ پھر (قبضے میں آنے والے) قیدی اکٹھے کیے گئے تو دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے ان قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ کوئی لونڈی لے لو۔‘‘ چنانچہ انہوں نے صفیہ بت حیی کو لے لیا‘ پھر ایک شخص نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ نے بنوقریضہ اور بنو نضیر دونوں قبیلوں کی سردار صفیہ بنت حیی‘ دحیہ کو دے دی ہے‘ حالانکہ وہ تو آپ کے علاو ہ کسی کے لیے مناسب نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وحیہ کو کہو‘ صفیہ کو لے کر آئے۔‘‘ وہ انہیں لے آئے تو نبیﷺ نے انہیں دیکھا اور فرمایا: ’’قیدیوں میں سے کوئی اور لونڈی لے لو۔‘‘ پھر نبیﷺ نے حضرت صفیہ کو آزاد فرماکر ان سے نکاح فرمالیا۔ (حضرت انس کے شاگرد) ثابت نے پوچھا: جناب ابوحمزہ! آپ نے انہیں مہر کیا دیا؟ انہوں نے فرمایا: ان کی جان ہی ان کا مہر تھی۔ آپ نے ان کو آزاد کردیا اور ان سے نکاح فرمالیا حتیٰ کہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ (ان کی عدت ختم ہوگئی اور میری والدہ) ام سلیم نے انہیں بنایا سنوار اور رات کو رسول اللہﷺ کے خیمے میں بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے ساتھ رات گزاری۔ صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے تو لے آئے۔‘‘ آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا۔ کوئی آدمی پنیر لاتا تھا‘ کوئی کھجوری اور کوئی گھی۔ صحابئہ کرام نے سب چیزوں کو ملا کر ملیدہ بنادیا۔ اور یہ رسول اللہﷺ کا ولیمہ ہوگیا۔
تشریح : (۱) دوران سفر دیگر ضروریات پوری کی جاستکیںہیں تو نکاح اور رخصتی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ بھی تو ضروریات سے ہیں‘ خصوصاً اس دور کے سفر جو کئی کئی ہفتے بلکہ مہینے جاری رہتے تھے اور بیوی بچے بھی ساتھ ہی ہوتے تھے۔ (۲) ’’ران‘‘ سواری پر بیٹھے ہوئے ہوا کی وجہ سے کپڑا ہٹ سکتا ہے‘ لہٰذا ران نظر آسکتی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ نے قصداً ران ننگی کی ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دوران سفر میں انسان اپنے بے تکلف ساتھیوں اور خدام کے سامنے ہوا خوری کے لیے ران ننگی کرلیتا ہے۔ مخصوص ساتھیوں کی مجلس میں بھی ایسا ممکن ہے کیونکہ ران شرم گاہ کی طرح تو نہیں‘ البتہ شرم گاہ سے قریب ہونے کی وجہ سے عموماً اسے بھی ڈھانپ کررکھنا چاہیے۔ نماز میں تو ران فرض ستر میں بالاتفاق داخل ہے۔ ران ننگی ہو تو نماز نہ ہوگی۔ ہاں‘ نماز کے علاوہ کسی ضرورت کی بنا پر یا اپنے بے تکلف ساتھیوں میں کبھی کبھار ران ننگی ہوجائے یا کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث میں تطبیق کا یہی طریقہ ہے۔ (۳) ’’خیبر ویران ہوگیا‘‘ وحی سے فرمایا یا فال کے طور پر۔ بعض اہل علم نے اسے دعا بھی قراردیا ہے کہ خیبر فتح ہوجائے۔ (۴) ’’شور مچا دیا‘‘ کیونکہ وہ لوگ آپ وار صحابہ کو پہنچانتے تھے۔ اس سے پہلے مدینہ ہی میں رہتے تھے۔ (۵) ’’صفیہ بنت حی‘‘ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ان کا نام صفیہ نہیں تھا‘ نام تو زینب تھا‘ آپ کے انتخاب فرمانے کی وجہ سے صفیہ (منتخب شدہ) کہا گیا۔ یہ حیی بن اخطب کی بیٹی تھی جو کہ تمام یہود کا سردار تھا اور ایک دوسرے سردار کے نکاح میں تھیں۔ نکاح بھی تازہ ہی ہوا تھا۔ خاوند جنگ میں مارا گیا۔ یہ قیدی ہوگئیں۔ ظاہر ہے‘ ایسے مرتبے کی خاتون کسی عام شخص کے لیے مناسب نہ تھیں۔ ]أَنْزِلُوْا النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ[’’لوگوں سے ان کے مرتبے کے مطابق سلوک کرنا چاہیے۔‘‘ نیز اس سے لوگو ںمیں اضطراب پیدا ہورہا تھا‘ اس لیے آپ نے انہیں دحیہ سے واپس لے کر اپنے لیے پسند فرمالیا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ وہ حضرت ہارونg کی نسل سے تھیں۔ نبی کی نسل سے اور نبی کے نکاح میں۔ واہ واہ۔ کیا شان ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۶) جو عورت لونڈی بننے سے پہلے کسی کے نکاح میں ہو‘ اس سے فوراً ہم بستری جائز نہیں جب تک اسے ایک ماہواری نہ آجائے تاکہ یقین ہوجائے کہ اسے سابقہ خاوند سے حمل نہیں۔ اگر حمل ہو تو وضع حمل تک ہم بستری جائز نہ ہوگی۔ حضرت صفیہ قید ہونے کے وقت حیض کی حالت میں تھیں۔ دوران سفر حیض ختم ہوگیا اور یقین ہوگیا کہ انہیں حمل نہیں کیونکہ حمل ہو تو حیض نہیں آتا‘ لہٰذا آپ کے لیے ان سے شب بسری جائز ہوگی۔ (۷) ’’یہ آپ کا ولیمہ ہوگیا‘‘ دوران سفر ایسا ولیمہ ہو ممکن تھاa۔ (۸) کفار سے لڑائی کرتے وقت نعرئہ تکبیر لگانا مستحب ہے‘ نیز اس موقع پر کثرت ذکر بھی مطلوب ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں اس موقع پر ذکر کرنے کا حکم دیا ہے: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن} (الأنفال۸:۴۵) (۱) دوران سفر دیگر ضروریات پوری کی جاستکیںہیں تو نکاح اور رخصتی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ بھی تو ضروریات سے ہیں‘ خصوصاً اس دور کے سفر جو کئی کئی ہفتے بلکہ مہینے جاری رہتے تھے اور بیوی بچے بھی ساتھ ہی ہوتے تھے۔ (۲) ’’ران‘‘ سواری پر بیٹھے ہوئے ہوا کی وجہ سے کپڑا ہٹ سکتا ہے‘ لہٰذا ران نظر آسکتی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ نے قصداً ران ننگی کی ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دوران سفر میں انسان اپنے بے تکلف ساتھیوں اور خدام کے سامنے ہوا خوری کے لیے ران ننگی کرلیتا ہے۔ مخصوص ساتھیوں کی مجلس میں بھی ایسا ممکن ہے کیونکہ ران شرم گاہ کی طرح تو نہیں‘ البتہ شرم گاہ سے قریب ہونے کی وجہ سے عموماً اسے بھی ڈھانپ کررکھنا چاہیے۔ نماز میں تو ران فرض ستر میں بالاتفاق داخل ہے۔ ران ننگی ہو تو نماز نہ ہوگی۔ ہاں‘ نماز کے علاوہ کسی ضرورت کی بنا پر یا اپنے بے تکلف ساتھیوں میں کبھی کبھار ران ننگی ہوجائے یا کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث میں تطبیق کا یہی طریقہ ہے۔ (۳) ’’خیبر ویران ہوگیا‘‘ وحی سے فرمایا یا فال کے طور پر۔ بعض اہل علم نے اسے دعا بھی قراردیا ہے کہ خیبر فتح ہوجائے۔ (۴) ’’شور مچا دیا‘‘ کیونکہ وہ لوگ آپ وار صحابہ کو پہنچانتے تھے۔ اس سے پہلے مدینہ ہی میں رہتے تھے۔ (۵) ’’صفیہ بنت حی‘‘ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ان کا نام صفیہ نہیں تھا‘ نام تو زینب تھا‘ آپ کے انتخاب فرمانے کی وجہ سے صفیہ (منتخب شدہ) کہا گیا۔ یہ حیی بن اخطب کی بیٹی تھی جو کہ تمام یہود کا سردار تھا اور ایک دوسرے سردار کے نکاح میں تھیں۔ نکاح بھی تازہ ہی ہوا تھا۔ خاوند جنگ میں مارا گیا۔ یہ قیدی ہوگئیں۔ ظاہر ہے‘ ایسے مرتبے کی خاتون کسی عام شخص کے لیے مناسب نہ تھیں۔ ]أَنْزِلُوْا النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ[’’لوگوں سے ان کے مرتبے کے مطابق سلوک کرنا چاہیے۔‘‘ نیز اس سے لوگو ںمیں اضطراب پیدا ہورہا تھا‘ اس لیے آپ نے انہیں دحیہ سے واپس لے کر اپنے لیے پسند فرمالیا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ وہ حضرت ہارونg کی نسل سے تھیں۔ نبی کی نسل سے اور نبی کے نکاح میں۔ واہ واہ۔ کیا شان ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۶) جو عورت لونڈی بننے سے پہلے کسی کے نکاح میں ہو‘ اس سے فوراً ہم بستری جائز نہیں جب تک اسے ایک ماہواری نہ آجائے تاکہ یقین ہوجائے کہ اسے سابقہ خاوند سے حمل نہیں۔ اگر حمل ہو تو وضع حمل تک ہم بستری جائز نہ ہوگی۔ حضرت صفیہ قید ہونے کے وقت حیض کی حالت میں تھیں۔ دوران سفر حیض ختم ہوگیا اور یقین ہوگیا کہ انہیں حمل نہیں کیونکہ حمل ہو تو حیض نہیں آتا‘ لہٰذا آپ کے لیے ان سے شب بسری جائز ہوگی۔ (۷) ’’یہ آپ کا ولیمہ ہوگیا‘‘ دوران سفر ایسا ولیمہ ہو ممکن تھاa۔ (۸) کفار سے لڑائی کرتے وقت نعرئہ تکبیر لگانا مستحب ہے‘ نیز اس موقع پر کثرت ذکر بھی مطلوب ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں اس موقع پر ذکر کرنے کا حکم دیا ہے: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن} (الأنفال۸:۴۵)