سنن النسائي - حدیث 3360

كِتَابُ النِّكَاحِ إِبَاحَةُ التَّزَوُّجِ بِغَيْرِ صَدَاقٍ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَتَاهُ قَوْمٌ فَقَالُوا إِنَّ رَجُلًا مِنَّا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا وَلَمْ يَجْمَعْهَا إِلَيْهِ حَتَّى مَاتَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَا سُئِلْتُ مُنْذُ فَارَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ هَذِهِ فَأْتُوا غَيْرِي فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ فِيهَا شَهْرًا ثُمَّ قَالُوا لَهُ فِي آخِرِ ذَلِكَ مَنْ نَسْأَلُ إِنْ لَمْ نَسْأَلْكَ وَأَنْتَ مِنْ جِلَّةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْبَلَدِ وَلَا نَجِدُ غَيْرَكَ قَالَ سَأَقُولُ فِيهَا بِجَهْدِ رَأْيِي فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنْ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَإِنْ كَانَ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنْ الشَّيْطَانِ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْهُ بُرَآءُ أُرَى أَنْ أَجْعَلَ لَهَا صَدَاقَ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا قَالَ وَذَلِكَ بِسَمْعِ أُنَاسٍ مَنْ أَشْجَعَ فَقَامُوا فَقَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَضَيْتَ بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ مِنَّا يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ قَالَ فَمَا رُئِيَ عَبْدُ اللَّهِ فَرِحَ فَرْحَةً يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِإِسْلَامِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3360

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل بغیر مہر کے نکاح کے جواز کا بیان حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی‘ ابھی اس نے مہر مقرر نہ کیا تھا اور نہ اس سے صحبت ہی کی تھی کہ وہ فوت ہوگیا۔ حضرت عبداللہ کہنے لگے: جب سے میں رسول اللہﷺ سے جدا ہوا ہوں‘ مجھ سے اس سے مشکل مسئلہ نہیں پوچھا گیا۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ ایک ماہ تک اس کی بابت آپ کے پاس آتے رہے۔ آخر وہ کہنے لگے: اگر ہم آپ سے نہ پوچھیں تو اور کس سے پوچھیں؟ اس شہر میں آپ ہی حضرت محمدﷺ کے جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ کے علاوہ ہمیں کوئی اور شخص نہیں ملتا۔ آپ فرمانے لگے: میں اس کے متعلق انتہائی سوچ بچار سے فتویٰ دیتا ہوں۔ اگر صحیح اور درست ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور اگر وہ غلط ہوا تو اس میں کوتاہی میری ہوگی۔ اور خرابی شیطان کی طرف سے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس سے بری ہوں گے۔ میرا خیال یہ ہے کہ میں اس کے لیے اس جیسی عورتوں کے مطابق مہر مقرر کروں۔ نہ کم نہ زیادہ۔ اسے وراثت بھی ملے گی اور اسے چار ماہ دس دن عدت بھی گزارنی ہو گی۔ اشجع قبیلے کے کچھ لوگ بھی یہ فتویٰ سن رہے تھے۔ انہوں نے اٹھ کر گوہی دی کہ بلاشبہ آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو رسول اللہﷺ نے ہماری ایک دعوت بروع بنت واشق کے متعلق کیا تھا۔ ہمارے دیکھنے میں نہیں آیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسلام کے علاوہ کسی اور بات پر اتنے خوش ہوئے ہوں جتنے اس دن خوش ہوئے (کہ میرا فتویٰ حدیث رسول کے مطابق ہوگیا)۔