سنن النسائي - حدیث 3356

كِتَابُ النِّكَاحِ إِبَاحَةُ التَّزَوُّجِ بِغَيْرِ صَدَاقٍ صحيح أَخْبَرَنَاعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَائِدَةَ بْنِ قُدَامَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ قَالَا أُتِيَ عَبْدُ اللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا فَتُوُفِّيَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ سَلُوا هَلْ تَجِدُونَ فِيهَا أَثَرًا قَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا نَجِدُ فِيهَا يَعْنِي أَثَرًا قَالَ أَقُولُ بِرَأْيِي فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنْ اللَّهِ لَهَا كَمَهْرِ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ فَقَامَ رَجُلٌ مَنْ أَشْجَعَ فَقَالَ فِي مِثْلِ هَذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا فِي امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ تَزَوَّجَتْ رَجُلًا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا فَقَضَى لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ صَدَاقِ نِسَائِهَا وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ فَرَفَعَ عَبْدُ اللَّهِ يَدَيْهِ وَكَبَّرَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْأَسْوَدُ غَيْرَ زَائِدَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3356

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل بغیر مہر کے نکاح کے جواز کا بیان حضرت علقمہ اور اسود سے منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کسی عورت سے نکاح کیا مگر مہر مقرر نہ کیا‘ نیز وہ بیوی کے ساتھ صحبت کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگیا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا: لوگوں سے پوچھو کیا اس بارے میں کوئی فرمان رسول موجود ہے؟ لوگوں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! ہم اس بارے میں کوئی فرمان نہیں پاتے۔ انہوں نے فرمایا: (اب) میں اپنی رائے سے بات کرتا ہوں۔ اگر میری بات درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہوگی۔ (میری رائے یہ ہے کہ) اس عورت کو اس جیسی دوسری عورتوں کے مطابق مہر ملے گا (یعنی مہر مثل) نہ کم نہ زیادہ۔ اسے وراثت بھی ملے گی اور اسے عدت وفات بھی گزارنی ہوگی۔ اتنے میں اشجع قبیلے کا آدمی کھڑا ہوکر کہنے لگا: ہمارے قبیلے کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا۔ اس عورت نے ایک آدمی سے نکاح کیا تھا اور وہ ا س کے ساتھ صحبت کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگیا تھا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ عورت کو اس جیسی دوسری عورتوں کے مطابق مہر ملے گا۔ اسے وراثت بھی ملے گی اور اسے عدت بھی گزارنی ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (بطور تشکر وخوشی) اپنے ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہا۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ زائدہ کے علاوہ کسی اور راوی نے اس حدیث میں اسود کا ذکر کیا ہو۔
تشریح : آئندہ روایات کا اسانید کو دیکھنے سے خود بخود وضاحت ہوجاتی ہے کہ زائدہ کے علاوہ باقی راوۃ صرف علقمہ کا ذکر کرتے ہیں۔ فوائدومسائل: (۱) مہر مقرر کرنے کے بغیر نکاح ہوسکتا ہے مگر مہر کی نفی نہ کی جائے۔ اگر مہر کی نفی کی جائے گی تو نکاح باطل ہوگا۔ مہر کی نفی نہ ہو مگر مقرر نہ کیا گیا ہو تو بعد میں جس پر بھی اتفاق ہوجائے‘ وہی مہر ہوگا اور اگر اتفاق نہ ہو تو اس عورت کی ذات اور خاندانی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مہر مقرر کیا جائے گا‘ مثلاً: اس کی بہنوں یا پھوپھیوں یا اس جیسی دوسری عورتوں کا عمومی مہر۔ اسے مہر مثل کہا جاتا ہے۔ (۲) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی بنیاد ی یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے اگرچہ مہر مقرر نہیں ہوا‘ اور وہ اس کی قانونی بیوی ہے اگرچہ جماع وغیرہ نہیں ہوا‘ لہٰذا اس پر تمام حقوق وفرائض لاگو ہوں گے۔ رسول اللہﷺ کا فیصلہ معلوم ہوجانے کے بعد تو اس فتویٰ کی صحت یقینی ہوگئی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۳) اگر ایک مسئلے میں شرعی نص وارد ہو تو پھر قیاس واجتہاد کی گنجائش نہیں بلکہ اسی پر عمل کیا جائے گا۔ (۴) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ورع تقویٰ دیکھیے کہ ایک ماہ تک غوروخوض کیا‘ پھر فتویٰ دیا جیسا کہ آئندہ روایت میں آرہا ہے۔ ایک عالم کے یہی لائق ہے کہ وہ فتویٰ دینے میں جلدی نہ کرے۔ نصوص میں غوروفکر کرے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ (۵) عالم دین کو اگر کوئی مسئلے کے بارے میں علم نہیں تو فوراً فتویٰ دینے کی بجائے دیگر جید علماء سے اس کی بابت پوری تفصیل معلوم کرے‘ پھر کوئی رائے قائم کرے۔ آئندہ روایات کا اسانید کو دیکھنے سے خود بخود وضاحت ہوجاتی ہے کہ زائدہ کے علاوہ باقی راوۃ صرف علقمہ کا ذکر کرتے ہیں۔ فوائدومسائل: (۱) مہر مقرر کرنے کے بغیر نکاح ہوسکتا ہے مگر مہر کی نفی نہ کی جائے۔ اگر مہر کی نفی کی جائے گی تو نکاح باطل ہوگا۔ مہر کی نفی نہ ہو مگر مقرر نہ کیا گیا ہو تو بعد میں جس پر بھی اتفاق ہوجائے‘ وہی مہر ہوگا اور اگر اتفاق نہ ہو تو اس عورت کی ذات اور خاندانی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مہر مقرر کیا جائے گا‘ مثلاً: اس کی بہنوں یا پھوپھیوں یا اس جیسی دوسری عورتوں کا عمومی مہر۔ اسے مہر مثل کہا جاتا ہے۔ (۲) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی بنیاد ی یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے اگرچہ مہر مقرر نہیں ہوا‘ اور وہ اس کی قانونی بیوی ہے اگرچہ جماع وغیرہ نہیں ہوا‘ لہٰذا اس پر تمام حقوق وفرائض لاگو ہوں گے۔ رسول اللہﷺ کا فیصلہ معلوم ہوجانے کے بعد تو اس فتویٰ کی صحت یقینی ہوگئی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۳) اگر ایک مسئلے میں شرعی نص وارد ہو تو پھر قیاس واجتہاد کی گنجائش نہیں بلکہ اسی پر عمل کیا جائے گا۔ (۴) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ورع تقویٰ دیکھیے کہ ایک ماہ تک غوروخوض کیا‘ پھر فتویٰ دیا جیسا کہ آئندہ روایت میں آرہا ہے۔ ایک عالم کے یہی لائق ہے کہ وہ فتویٰ دینے میں جلدی نہ کرے۔ نصوص میں غوروفکر کرے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ (۵) عالم دین کو اگر کوئی مسئلے کے بارے میں علم نہیں تو فوراً فتویٰ دینے کی بجائے دیگر جید علماء سے اس کی بابت پوری تفصیل معلوم کرے‘ پھر کوئی رائے قائم کرے۔