سنن النسائي - حدیث 3353

كِتَابُ النِّكَاحِ التَّزْوِيجُ عَلَى نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ أَثَرُ الصُّفْرَةِ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا قَالَ زِنَةَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3353

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل سونے کے نواۃ کو مہر مقرر کرنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو ان پر صفرہ کے نشانات تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو نے اسے کیا مہر دیا؟‘‘ انہوں نے کہا: سونے کا ایک نواۃ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔‘‘
تشریح : (۱) ’’صفرۃ‘‘ یہ ایک رنگ دار خوشبو تھی جسے عورتیں استعمال کرتی تھیں۔ رنگ دار خوشبو مردوں کے لیے جائز نہیں‘ اس لیے نبیﷺ کو پوچھنا پڑا۔ (۲) ’’شادی کرلے‘‘ اس کا اندازہ آپ کو رنگ دار خوشبو سے ہوگیا‘ یہ خوشبو مردوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ انہیں یہ خوشبو بیوی کے ساتھ اپنے بیٹھنے کی وجہ سے لگی تھی‘ انہوں نے قصداً نہ لگائی تھی۔ اسی لیے اس پر زیادہ توجہ بھی نہیں دی گئی۔ (۳) ’’نواۃ‘‘ یہ سونے کا ایک سکہ تھا جس کی قیمیت تین یا بقول بعض پانچ درہم تھی۔ گویا اتنا مہر بھی ہوسکتا ہے۔ احناف کے نزدیک کم از کم مہردس درہم ہے۔ ان کی دلیل دار قطنی کی ایک ضعیف حدیث ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں مطلق مال کا ذکر ہے اور صحیح احادیث میں لوہے کی انگوٹھی تک کو مہر کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔ تعارض کی صورت میں صحیح احادیث پر عمل کرنا چاہیے۔ امام مالک رحمہ اللہ چوتھائی دینار (تقریباً تین درہم) کو کم ازکم مہرمانتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نہ معمولہ ولیمہ ہے۔ عرب تو کئی کئی اونٹوں سے ولیمہ کرتے تھے مگر وہ تنگکی کادور تھا‘ لہٰذا اتنا بھی کافی تھا۔ جمہور اہل علم ولیمے کو مستحب سمجھتے ہیں‘ البتہ اہل ظاہر نے ظاہر الفاظ کی رعایت سے واجب کہا ہے۔ ولیمہ شادی کے بعد دوسرے دن کرنا مسنون ہے‘ البتہ کسی شرعی مجبوری کی بنا پر تاخیر ہوسکتی ہے۔ شادی سے پہلے ولیمہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دلھا کی طرف سے شادی کی خوشی کے موقع پر دعوت ہوتی ہے۔ (۵) حق مہر ضروری ہے۔ (۱) ’’صفرۃ‘‘ یہ ایک رنگ دار خوشبو تھی جسے عورتیں استعمال کرتی تھیں۔ رنگ دار خوشبو مردوں کے لیے جائز نہیں‘ اس لیے نبیﷺ کو پوچھنا پڑا۔ (۲) ’’شادی کرلے‘‘ اس کا اندازہ آپ کو رنگ دار خوشبو سے ہوگیا‘ یہ خوشبو مردوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ انہیں یہ خوشبو بیوی کے ساتھ اپنے بیٹھنے کی وجہ سے لگی تھی‘ انہوں نے قصداً نہ لگائی تھی۔ اسی لیے اس پر زیادہ توجہ بھی نہیں دی گئی۔ (۳) ’’نواۃ‘‘ یہ سونے کا ایک سکہ تھا جس کی قیمیت تین یا بقول بعض پانچ درہم تھی۔ گویا اتنا مہر بھی ہوسکتا ہے۔ احناف کے نزدیک کم از کم مہردس درہم ہے۔ ان کی دلیل دار قطنی کی ایک ضعیف حدیث ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں مطلق مال کا ذکر ہے اور صحیح احادیث میں لوہے کی انگوٹھی تک کو مہر کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔ تعارض کی صورت میں صحیح احادیث پر عمل کرنا چاہیے۔ امام مالک رحمہ اللہ چوتھائی دینار (تقریباً تین درہم) کو کم ازکم مہرمانتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نہ معمولہ ولیمہ ہے۔ عرب تو کئی کئی اونٹوں سے ولیمہ کرتے تھے مگر وہ تنگکی کادور تھا‘ لہٰذا اتنا بھی کافی تھا۔ جمہور اہل علم ولیمے کو مستحب سمجھتے ہیں‘ البتہ اہل ظاہر نے ظاہر الفاظ کی رعایت سے واجب کہا ہے۔ ولیمہ شادی کے بعد دوسرے دن کرنا مسنون ہے‘ البتہ کسی شرعی مجبوری کی بنا پر تاخیر ہوسکتی ہے۔ شادی سے پہلے ولیمہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دلھا کی طرف سے شادی کی خوشی کے موقع پر دعوت ہوتی ہے۔ (۵) حق مہر ضروری ہے۔