سنن النسائي - حدیث 3352

كِتَابُ النِّكَاحِ الْقِسْطُ فِي الْأَصْدِقَةِ صحيح أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ زَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ وَأَمْهَرَهَا أَرْبَعَةَ آلَافٍ وَجَهَّزَهَا مِنْ عِنْدِهِ وَبَعَثَ بِهَا مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ وَلَمْ يَبْعَثْ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ وَكَانَ مَهْرُ نِسَائِهِ أَرْبَعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3352

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل مہر مقرر کرنے میں انصاف سے کام لینا حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے نکاح کیا جبکہ وہ حبشہ میں تھیں۔ ان کا نکاح نجاشی سے کیا تھا اور انہوں نے اپنے پاس سے چار ہزار درہم مہر دیا تھا اور انہیں رخصتی کا سامان (ضرورت) بھی اپنے پاس سے دیا اور انہیں حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں (حبشہ میں) کوئی چیز نہیں بھیجی تھی۔ آپ کی دوسری عورتوں کا مہر چار سو درہم تھا۔
تشریح : (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ ابوداود (حدیث: ۲۰۸۶) میں اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے بہت زیادہ شواہد ہیں۔ لیکن ان شواہد کی صحت وضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخn کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘ نیز دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت دلائل کی رو سے صحیح قرار پاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲) ’’حبشہ میں تھی‘‘ دراصل یہ اپنے خاوند عبیداللہ بن حجش کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ کچھ دیر بعد مالی مفاد کی خاطر عبیداللہ بن حجش عیسائی بن گیا اور اسی ارتداد کی حالت میں فوت ہوا۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلام پر قائم رہیں۔ آپ کو صورت حال کا پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کا پیغام دے کر حضرت نجاشی شاہ حبش کے پاس بھیجا۔ (۳) یہ ۶ یا سات ہجری کی بات ہے۔ اس وقت حضرت ام حبیبہؓسے شادی کرنا ایک طرف تو ایک غریب الدیار عورت جو اپنے ماں باپ کو مستقلاً آپ کے لیے چھوڑ چکی تھی‘ واحد سہارا خاوند مرتد ہو کر مرچکا تھا‘ کی حوصلہ افزائی اور قدر بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ ہے جس نے کفار قریش کی کمر توڑدی اور ابوسفیان آپ سے لڑنے کے قابل نہ رہے۔ (۴) شادی کے موقع پر بیٹی یا بہن وغیرہ کی تالیف قلب کے لیے بطور تحفہ نیا گھر بسانے کے لیے ضرورت کی کچھ اشیاء دے دینا مستحب ہے۔ بیٹے کی شادی پر خرچ کرنا اور بیٹی کو خالی ہاتھ بھیج دینا مساوات اسلامی کے منافی ہے۔ البتہ اس میں غور اور تکلف ناجائز ہے‘ نیز اس سے مروجہ جہیز کے جواز پر استدلال بھی درست نہیں۔ یہ ایک غیر اسلامی رسم ہے جس میں بہت سی قباحتیں ہیں‘ مثلاً: جہیز ہ لانے پر لڑکی کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آنا‘ روزانہ کی طعن وتشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردینا‘ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا اور اس میں مختلف چیزوں کا مطالبہ کرنا اور نتیجتاً لڑکی کے اولیاء کا قرض کے بارگراں تلے دب جانا وغیرہ جس کی تفصیل حدیث: ۳۳۸۶ کے فائدے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (۵) ’’چار سودرہم‘‘ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ دس اوقیے کا ترجمہ ہے اور اس میںکسر گرائی گئی ہے ورنہ رسول اللہﷺکا مقر کردہ عام مہر پانچ صددرہم تھا۔ (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ ابوداود (حدیث: ۲۰۸۶) میں اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے بہت زیادہ شواہد ہیں۔ لیکن ان شواہد کی صحت وضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخn کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘ نیز دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت دلائل کی رو سے صحیح قرار پاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲) ’’حبشہ میں تھی‘‘ دراصل یہ اپنے خاوند عبیداللہ بن حجش کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ کچھ دیر بعد مالی مفاد کی خاطر عبیداللہ بن حجش عیسائی بن گیا اور اسی ارتداد کی حالت میں فوت ہوا۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلام پر قائم رہیں۔ آپ کو صورت حال کا پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کا پیغام دے کر حضرت نجاشی شاہ حبش کے پاس بھیجا۔ (۳) یہ ۶ یا سات ہجری کی بات ہے۔ اس وقت حضرت ام حبیبہؓسے شادی کرنا ایک طرف تو ایک غریب الدیار عورت جو اپنے ماں باپ کو مستقلاً آپ کے لیے چھوڑ چکی تھی‘ واحد سہارا خاوند مرتد ہو کر مرچکا تھا‘ کی حوصلہ افزائی اور قدر بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ ہے جس نے کفار قریش کی کمر توڑدی اور ابوسفیان آپ سے لڑنے کے قابل نہ رہے۔ (۴) شادی کے موقع پر بیٹی یا بہن وغیرہ کی تالیف قلب کے لیے بطور تحفہ نیا گھر بسانے کے لیے ضرورت کی کچھ اشیاء دے دینا مستحب ہے۔ بیٹے کی شادی پر خرچ کرنا اور بیٹی کو خالی ہاتھ بھیج دینا مساوات اسلامی کے منافی ہے۔ البتہ اس میں غور اور تکلف ناجائز ہے‘ نیز اس سے مروجہ جہیز کے جواز پر استدلال بھی درست نہیں۔ یہ ایک غیر اسلامی رسم ہے جس میں بہت سی قباحتیں ہیں‘ مثلاً: جہیز ہ لانے پر لڑکی کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آنا‘ روزانہ کی طعن وتشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردینا‘ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا اور اس میں مختلف چیزوں کا مطالبہ کرنا اور نتیجتاً لڑکی کے اولیاء کا قرض کے بارگراں تلے دب جانا وغیرہ جس کی تفصیل حدیث: ۳۳۸۶ کے فائدے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (۵) ’’چار سودرہم‘‘ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ دس اوقیے کا ترجمہ ہے اور اس میںکسر گرائی گئی ہے ورنہ رسول اللہﷺکا مقر کردہ عام مہر پانچ صددرہم تھا۔