سنن النسائي - حدیث 3351

كِتَابُ النِّكَاحِ الْقِسْطُ فِي الْأَصْدِقَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِخِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ وَابْنِ عَوْنٍ وَسَلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ وَهِشَامِ بْنِ حَسَّانَ دَخَلَ حَدِيثُ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سَلَمَةُ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ وَقَالَ الْآخَرُونَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَلَا لَا تَغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مَكْرُمَةً وَفِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ وَلَا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ وَحَتَّى يَقُولَ كُلِّفْتُ لَكُمْ عِلْقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا فَلَمْ أَدْرِ مَا عِلْقُ الْقِرْبَةِ قَالَ وَأُخْرَى يَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيكُمْ أَوْ مَاتَ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا أَوْ مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا يَطْلُبُ التِّجَارَةَ فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مَاتَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3351

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل مہر مقرر کرنے میں انصاف سے کام لینا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خبردار! عورتوں کے مہر کے مسئلے میںحد سے نہ بڑھو۔ اگر کثیر مہر دنیا میں عزت یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ کا سبب ہوتا تو نبیﷺ اس کے زیادہ لائق تھے‘ جب کہ رسول اللہﷺ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو بارہ اوقیے سے زیادہ مہر نہیں دیا‘ اور نہ آپ کی کسی بیٹی کو اس سے زیادہ مہر دیا گیا۔ بسا اوقات کوئی شخص مہر زیادہ مقرر کرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں اپنی بیوی سے دشمنی ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لیے مشکیزے کی رسی کی تکلیف برداشت کی (بڑی مصیبت اٹھائی) ایک راوئی حدیث (ابو العجفائ) نے کہا: میں عربوں میں صرف پیدا ہوا ہوں‘ خالص عربی نہیں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاء اور ایک (نامناسب) بات تم یہ کہتے ہو کہ جو شخص تمہاری ان جنگوں میں مارا جاتا ہ یا مرجاتا ہے‘ تم کہتے ہو‘ فلاں آدمی شہید ہوا یا شہادت کی موت مرا۔ ہوسکتا ہے اس شخص نے اپنے جانور کی پشت یا ا س کے پالان اور کاٹھی کو سونے یا چاندی سے لادا ہو اور اس کی نیت تجارت کی ہو‘ اس لیے تم ایسے نہ کہو بلکہ تم اس طرح کہو جس طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ’’جوشخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارا جائے یا فوت ہوجائے‘ وہ جنت میں جائے گا۔‘‘
تشریح : (۱) ’’حد سے نہ بڑھو‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زیادہ مہر سے منع نہیں فرمایا بلکہ حیثیت سے بڑھ کر مقرر کرنے سے روکا ہے۔ جس طرح کہ بعد والے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ (۲) ’’بارہ‘‘ مراد ساڑھے بارہ ہی ہیں جیسا کہ دوسری حدیث میں گزرا مگر یہاں کسر گرادی گئی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ النکاح‘ حدیث: ۱۴۲۶) (۳) ’’مشکیزے کی رسی‘‘ مشکیزہ عام طور پر رسی کی مدد سے اٹھایا جاتا ہے حتیٰ کہ اس رسی کے نشان جسم پر پڑ جاتے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ مجھے تیری وجہ سے بہت ذلیل ہونا پڑا ہے اور بڑی مشقت اٹھانی پڑی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ (۴) ’’ہوسکتا ہے‘‘ یعنی ضروری نہیں میدان جنگ میںہر مارا جانے والا یا مرنے والا شہید ہو ہو کیونکہ شہادت کا مدار تو نیت پر ہے۔ اور نیتیوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لہٰذا تم کسی کو شہید یا جنتی نہ کہو بلکہ اصولی بات کہو کہ جو شخص اللہ کے راستے میںمارا جائے‘ وہ شہید اور جنتی ہے۔ (۱) ’’حد سے نہ بڑھو‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زیادہ مہر سے منع نہیں فرمایا بلکہ حیثیت سے بڑھ کر مقرر کرنے سے روکا ہے۔ جس طرح کہ بعد والے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ (۲) ’’بارہ‘‘ مراد ساڑھے بارہ ہی ہیں جیسا کہ دوسری حدیث میں گزرا مگر یہاں کسر گرادی گئی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ النکاح‘ حدیث: ۱۴۲۶) (۳) ’’مشکیزے کی رسی‘‘ مشکیزہ عام طور پر رسی کی مدد سے اٹھایا جاتا ہے حتیٰ کہ اس رسی کے نشان جسم پر پڑ جاتے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ مجھے تیری وجہ سے بہت ذلیل ہونا پڑا ہے اور بڑی مشقت اٹھانی پڑی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ (۴) ’’ہوسکتا ہے‘‘ یعنی ضروری نہیں میدان جنگ میںہر مارا جانے والا یا مرنے والا شہید ہو ہو کیونکہ شہادت کا مدار تو نیت پر ہے۔ اور نیتیوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لہٰذا تم کسی کو شہید یا جنتی نہ کہو بلکہ اصولی بات کہو کہ جو شخص اللہ کے راستے میںمارا جائے‘ وہ شہید اور جنتی ہے۔