سنن النسائي - حدیث 3342

كِتَابُ النِّكَاحِ التَّزْوِيجُ عَلَى الْإِسْلَامِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ تَزَوَّجَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ فَكَانَ صِدَاقُ مَا بَيْنَهُمَا الْإِسْلَامَ أَسْلَمَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ قَبْلَ أَبِي طَلْحَةَ فَخَطَبَهَا فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَإِنْ أَسْلَمْتَ نَكَحْتُكَ فَأَسْلَمَ فَكَانَ صِدَاقَ مَا بَيْنَهُمَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3342

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل اسلام لانے کی شرط پر نکاح کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (میری والدہ) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو ان دونوں کے درمیان (ابو طلحہ کا) اسلام لانا ہی حق مہر قرار پایا۔ (دراصل) ام سلیم رضی اللہ عنہ حضرت ابوطلحہ سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں۔ حضرت ابوطلحہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگی: میں تو مسلمان ہوچکی ہوں اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ تو میں تم سے نکاح کرلوں گی۔ تب وہ مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ وہی (ان کا مسلمان ہونا ہی) ان دونوں کے درمیان حق مہر مقرر ہوا۔
تشریح : (۱) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طلحہ کے اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز مہر نہ تھی۔ آئندہ روایت اس کی مزید صراحت کرتی ہے‘ لہٰذا کوئی بھی منفعت مہر بن سکتی ہے‘ دینی ہو یا دنیوی۔ جس طرح سابقہ حدیث میں تعلیم قرآن کا ذکر ہے اور یہی بات صحی ہے۔ مگر موالک واحناف مہر کے لیے ’’مال‘‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے: {اَنْ تَبْتَغُوْ بِاَمْوَالِکُمْ} (النساء ۴:۲۴) لہٰذا وہ ایسی احادیث کی تاویل کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ان چیزوں کو کافی سمجھ لیا گیا ورنہ اصل مہر بعد میں واجب الادا ہوتا تھا۔ یا یہ چیزیں نکاح کا سبب تھیں نہ کہ مہر‘ لیکن احادیث کے صریح الفاظ اس تاویل کو قبول نہیں کرتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ مجبوری یا عورت کی رضا مندی کے وقت ’’غیر مال‘‘ کو بھی مہر مانا جائے تاکہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث پر بھی عمل ہو۔ قرآن مجید میں گویا عام صورت بیان کی گئی ہے نہ کہ مال کو شرط قراردیا گیا ہے کیونکہ احادیث‘ قرآن سمجھنے کے لیے بہترین بلکہ ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامf قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اور وہ قرآن مجید ہم سب سے زیادہ سمجھتے تھے۔ (۲) حضرت ام سلیمؓ کے پہلے خاوند حضرت مالک انصاری تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔ ان کی وفات کے بعد مندرجہ بالا صورت حال پیش آئی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے جب مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جیسے مبلغین کی کوششوں سے اسلام پھیل رہا تھا۔ (۱) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طلحہ کے اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز مہر نہ تھی۔ آئندہ روایت اس کی مزید صراحت کرتی ہے‘ لہٰذا کوئی بھی منفعت مہر بن سکتی ہے‘ دینی ہو یا دنیوی۔ جس طرح سابقہ حدیث میں تعلیم قرآن کا ذکر ہے اور یہی بات صحی ہے۔ مگر موالک واحناف مہر کے لیے ’’مال‘‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے: {اَنْ تَبْتَغُوْ بِاَمْوَالِکُمْ} (النساء ۴:۲۴) لہٰذا وہ ایسی احادیث کی تاویل کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ان چیزوں کو کافی سمجھ لیا گیا ورنہ اصل مہر بعد میں واجب الادا ہوتا تھا۔ یا یہ چیزیں نکاح کا سبب تھیں نہ کہ مہر‘ لیکن احادیث کے صریح الفاظ اس تاویل کو قبول نہیں کرتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ مجبوری یا عورت کی رضا مندی کے وقت ’’غیر مال‘‘ کو بھی مہر مانا جائے تاکہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث پر بھی عمل ہو۔ قرآن مجید میں گویا عام صورت بیان کی گئی ہے نہ کہ مال کو شرط قراردیا گیا ہے کیونکہ احادیث‘ قرآن سمجھنے کے لیے بہترین بلکہ ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامf قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اور وہ قرآن مجید ہم سب سے زیادہ سمجھتے تھے۔ (۲) حضرت ام سلیمؓ کے پہلے خاوند حضرت مالک انصاری تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔ ان کی وفات کے بعد مندرجہ بالا صورت حال پیش آئی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے جب مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جیسے مبلغین کی کوششوں سے اسلام پھیل رہا تھا۔