سنن النسائي - حدیث 3337

كِتَابُ النِّكَاحِ الشِّغَارِ صحيح أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرٌ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ وَمَنْ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3337

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل شغار کا بیان حضرت عمرابن بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اسلام میں جَلَب‘ جَنَب اور شِغار جائز نہیں۔ اور جو شخص لوٹ مار کرے‘ وہ ہم میں سے نہیں۔
تشریح : (۱) جَلبَ اور جَنَبَ دواصلاحات ہیں جو زکاۃ میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور گھوڑ دوڑ میں بھی۔ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃ والا لوگوں کو مجبور کرے کہ اپنے زکاۃ والے جانور میرے دفتر یا مرکز میں لاؤ تاکہ میں ان کا حساب لگا کر زکاۃ وصول کروں۔ اور جنب یہ ہے کہ زکاۃ لینے والا لوگوں کے ہاں آئے تو وہ اپن جانور ادھر ادھر چرنے کے لیے بھی دیں اور انہیں قصداً بکھیر دیں۔ یہ دونوں صورتیں منع ہیں کیونکہ پہلی صورت میں عوام الناس اور دوسری صورت میں زکاۃ لینے والے افسر کو ناحق تکلیف ہوگی۔ بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ زکاۃ لینے والا جانوروں کے پانی اور رہائش کی جگہ پر جا کر ان کا حساب لگا کر زکاۃ وصول کرے اور جانوروں والے اس دن جانوروں کو ان کے باڑوں میں رکھیں تاکہ فریقین میں سے کوئی بھی تنگ نہ ہو۔ گھوڑ دور میں جلب یہ ہے کہ گھوڑ سوار راستے میں کسی آدمی کو مقرر کرے کہ جب میرا گھوڑا تیرے پاس سے گزرے تو اسے ڈرا دینا تاکہ یہ مزید تیز ہوجائے اور دوڑ جیت لے۔ جنب یہ ہے کہ اپنے گھوڑے کے ساتھ ایک خالی گھوڑا بھی لے جاؤ تاکہ دوڑ کے دوران میں اگر ایک گھوڑا سست پڑجائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو جائے تاکہ دوڑ جیت سکے۔ چونکہ ان دونوں صورتوں (جلب اور جنب) میں دھوکا اور فراڈ ہے‘ لہٰذا گھوڑ دوڑ میں ان سے روک دیا گیا۔ (۲) ’’شغار جائز نہیں‘‘ یعنی ایسا نکاح (راجح مسلک کے مطابق) منعقد ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ عقد فاسد ہے۔ اسے توڑنا ضروری ہے۔ (۳) ’’ہم میں سے نہیں‘‘ یعنی اس مسئلے میں اہل ایمان اور اہل اسلام کے طریقے پر نہیں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اب وہ بالکل مسلمان ہی نہیں رہا۔ (۱) جَلبَ اور جَنَبَ دواصلاحات ہیں جو زکاۃ میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور گھوڑ دوڑ میں بھی۔ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃ والا لوگوں کو مجبور کرے کہ اپنے زکاۃ والے جانور میرے دفتر یا مرکز میں لاؤ تاکہ میں ان کا حساب لگا کر زکاۃ وصول کروں۔ اور جنب یہ ہے کہ زکاۃ لینے والا لوگوں کے ہاں آئے تو وہ اپن جانور ادھر ادھر چرنے کے لیے بھی دیں اور انہیں قصداً بکھیر دیں۔ یہ دونوں صورتیں منع ہیں کیونکہ پہلی صورت میں عوام الناس اور دوسری صورت میں زکاۃ لینے والے افسر کو ناحق تکلیف ہوگی۔ بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ زکاۃ لینے والا جانوروں کے پانی اور رہائش کی جگہ پر جا کر ان کا حساب لگا کر زکاۃ وصول کرے اور جانوروں والے اس دن جانوروں کو ان کے باڑوں میں رکھیں تاکہ فریقین میں سے کوئی بھی تنگ نہ ہو۔ گھوڑ دور میں جلب یہ ہے کہ گھوڑ سوار راستے میں کسی آدمی کو مقرر کرے کہ جب میرا گھوڑا تیرے پاس سے گزرے تو اسے ڈرا دینا تاکہ یہ مزید تیز ہوجائے اور دوڑ جیت لے۔ جنب یہ ہے کہ اپنے گھوڑے کے ساتھ ایک خالی گھوڑا بھی لے جاؤ تاکہ دوڑ کے دوران میں اگر ایک گھوڑا سست پڑجائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو جائے تاکہ دوڑ جیت سکے۔ چونکہ ان دونوں صورتوں (جلب اور جنب) میں دھوکا اور فراڈ ہے‘ لہٰذا گھوڑ دوڑ میں ان سے روک دیا گیا۔ (۲) ’’شغار جائز نہیں‘‘ یعنی ایسا نکاح (راجح مسلک کے مطابق) منعقد ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ عقد فاسد ہے۔ اسے توڑنا ضروری ہے۔ (۳) ’’ہم میں سے نہیں‘‘ یعنی اس مسئلے میں اہل ایمان اور اہل اسلام کے طریقے پر نہیں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اب وہ بالکل مسلمان ہی نہیں رہا۔