كِتَابُ النِّكَاحِ نِكَاحُ مَا نَكَحَ الْآبَاءُ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ زَيْدٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَصَبْتُ عَمِّي وَمَعَهُ رَايَةٌ فَقُلْتُ أَيْنَ تُرِيدُ فَقَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةَ أَبِيهِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ وَآخُذَ مَالَهُ
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
آباء کی منکوحہ عورتوں سے نکاح
حضرت براء ؓ سے مروی ہے کہ میں اپنے چچا کو ملا تو ان کے پاس ایک جھنڈا تھا۔ میں نے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے مجھے فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے والد کی وفات کے بعد اس کی منکوحہ بیوی سے نکاح کرلیا تھا‘ کہ میں اس کی گردن اتاردوں‘ یا اس کا مال چھین لوں
تشریح :
(۱) ’’چچا سابقہ روایت میں ’’ماموں‘‘ کہا گیا ہے ایک رشتہ رضاعی ہو‘ دوسرا نسبی۔ اس دور میں رضاعی رشتے عام تھے کیونکہ دیگر عورتوں سے رضاعت کا بہت رواج تھا۔ (۲) ’’جھنڈا‘‘ یعنی رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے۔ (۳) ’’اس کا مال چھین لوں‘‘ گویا باپ کی منکوحہ سے نکاح ارتداد کے جرم کے برابر ہے‘ اس لیے اس کا مال بیت المال میں جمع ہوگا۔ جس طرح مرتد قتل کیا جاتا ہے اور ا س کا مال اس کے ورثاء کو دینے کی بجائے بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ ] لاَیَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ‘ وَلاَ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ[ مسلمان کافر کا وارث ہے نہ کافرمسلمان کا۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الفرائض‘ حدیث: ۶۷۶۴‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث: ۱۶۱۴) (۴) شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے حقوق کی کاحقہ حفاظت کی ہے۔ (۵) معلوم ہوتا ہے کہ ضبط مال کے ساتھ یا مالی جرمانے کے ساتھ بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ (۶) حاکم وقت سنگین جرم کی بنا پر تعذیراً قتل کی سزا دے سکتا ہے۔
(۱) ’’چچا سابقہ روایت میں ’’ماموں‘‘ کہا گیا ہے ایک رشتہ رضاعی ہو‘ دوسرا نسبی۔ اس دور میں رضاعی رشتے عام تھے کیونکہ دیگر عورتوں سے رضاعت کا بہت رواج تھا۔ (۲) ’’جھنڈا‘‘ یعنی رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے۔ (۳) ’’اس کا مال چھین لوں‘‘ گویا باپ کی منکوحہ سے نکاح ارتداد کے جرم کے برابر ہے‘ اس لیے اس کا مال بیت المال میں جمع ہوگا۔ جس طرح مرتد قتل کیا جاتا ہے اور ا س کا مال اس کے ورثاء کو دینے کی بجائے بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ ] لاَیَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ‘ وَلاَ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ[ مسلمان کافر کا وارث ہے نہ کافرمسلمان کا۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الفرائض‘ حدیث: ۶۷۶۴‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث: ۱۶۱۴) (۴) شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے حقوق کی کاحقہ حفاظت کی ہے۔ (۵) معلوم ہوتا ہے کہ ضبط مال کے ساتھ یا مالی جرمانے کے ساتھ بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ (۶) حاکم وقت سنگین جرم کی بنا پر تعذیراً قتل کی سزا دے سکتا ہے۔