سنن النسائي - حدیث 3332

كِتَابُ النِّكَاحِ الشَّهَادَةُ فِي الرَّضَاعِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ عُقْبَةَ وَلَكِنِّي لِحَدِيثِ عُبَيْدٍ أَحْفَظُ قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقُلْتُ إِنِّي تَزَوَّجْتُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ فَجَاءَتْنِي امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا فَأَعْرَضَ عَنِّي فَأَتَيْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ فَقُلْتُ إِنَّهَا كَاذِبَةٌ قَالَ وَكَيْفَ بِهَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّهَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا دَعْهَا عَنْكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3332

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل رضاعت کی بابت گواہی کا بیان حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ہمارے پاس ایک کالے رنگ کی عورت آئی اور کہنے لگی: میںنے تو تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ (اس لیے تمہارا نکاح درست نہیں۔) میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے پورا واقعہ بیان کیا اور میں نے کہا: میں نے ایک عورت فلانہ بنت فلاں سے شادی کی ہے۔ میرے پاس ایک کالے رنگ کی عورت آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ آپ نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ میں پھر آپ کے چہرئہ انور کی جانب آیا اور کہا کہ وہ جھوٹ بولتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو کیسے اس (اپنی بیوی) کے ساتھ رہ سکتا ہے جب کہ وہ کہتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے‘ اسے چھوڑ دے۔‘‘
تشریح : (۱) روایت کچھ مختصر ہے۔ یہ عقبہ بن عامر مکے میں رہتے تھے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے۔ یہ مسئلہ پیش آیا تو وہ اطمینان قلب کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ کے فرمان پر عمل کیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) ’’اسے چھوڑ دے‘‘ کیونکہ رضاعت ایک پوشیدہ چیز ہے۔ اس کے گواہ ممکن نہیں‘ نہ ایسے مواقع پر گواہ بنائے ہی جاسکتے ہیں‘ لہٰذا رضاعت پر گواہی طلب کرنا فضول ہے بلکہ مُرْضِعَۃ کی بات معتبر ہوگی۔ جس طرح پیدائش کے بارے میں دائی کی بات ہی معتبر ہوتی ہے اور اس سے گواہ طلب نہیںکیے جاتے۔ ان مواقع پر گواہی کو ضروری قراردینا بہت سی یقینی باتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا‘ اس لیے رسول اللہﷺ نے وہ نکاح فسخ کرنے کا حکم دیا۔ اگرچہ اس عورت کی تصدیق کسی نے بھی نہیں کی۔ (۳) شبہات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (۱) روایت کچھ مختصر ہے۔ یہ عقبہ بن عامر مکے میں رہتے تھے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے۔ یہ مسئلہ پیش آیا تو وہ اطمینان قلب کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ کے فرمان پر عمل کیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) ’’اسے چھوڑ دے‘‘ کیونکہ رضاعت ایک پوشیدہ چیز ہے۔ اس کے گواہ ممکن نہیں‘ نہ ایسے مواقع پر گواہ بنائے ہی جاسکتے ہیں‘ لہٰذا رضاعت پر گواہی طلب کرنا فضول ہے بلکہ مُرْضِعَۃ کی بات معتبر ہوگی۔ جس طرح پیدائش کے بارے میں دائی کی بات ہی معتبر ہوتی ہے اور اس سے گواہ طلب نہیںکیے جاتے۔ ان مواقع پر گواہی کو ضروری قراردینا بہت سی یقینی باتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا‘ اس لیے رسول اللہﷺ نے وہ نکاح فسخ کرنے کا حکم دیا۔ اگرچہ اس عورت کی تصدیق کسی نے بھی نہیں کی۔ (۳) شبہات سے اجتناب کرنا چاہیے۔