سنن النسائي - حدیث 3321

كِتَابُ النِّكَاحِ رَضَاعِ الْكَبِيرِ صحيح أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ نَافِعٍ يَقُولُ سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ تَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْضِعِيهِ قُلْتُ إِنَّهُ لَذُو لِحْيَةٍ فَقَالَ أَرْضِعِيهِ يَذْهَبْ مَا فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا عَرَفْتُهُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ بَعْدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3321

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل بڑی عمر والے کو دودھ پلانے کا بیان نبیﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت سہلہ بنت سہیل رسول اللہﷺکے پاس حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! سالم کے میرے پاس آنے جانے کی وجہ سے میں (اپنے خاوند) ابو حذِیفہ کے چہرے پر کراہت کے آثار دیکھتی ہوں۔ (کیا کروں؟) آپ نے فرمایا: ’’تو اسے دودھ پلادے۔‘‘ میںنے کہا: وہ تو داڑھی والا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’دودھ پلا دے‘ اس سے ابو حذیفہ کے چہرے کی کراہت ختم ہوجائے گی۔‘‘ وہ فرماتی ہیں : اس کے بعد میں نے کبھی حضرت ابوحذیفہ کے چہرے پر کراہت محسوس نہیں کی۔
تشریح : حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بنا رکھا تھا۔ وہ گھر میں بیٹوں کی طرح رہتا اور آتا جاتا رہتا تھا۔ جب یہ حکم اترا کہ متبنیٰ حقیقتاً بیٹا نہیں بنتا‘ نہ اس پر بیٹے کے احکام لاگو ہوتے ہیں تو اس سے پردہ فرض ہوگیا‘ اس لیے مندرجہ بالا صورت حال پید ہوئی اب بھی جہاں اس قسم کی ورت حال پیش آئے گی‘ وہاں حضرت عائشہؓ‘ امام ابن تیمیہ اور امام شوکافی وغیر ہم کے نزدیک اس پر عمل کی گنجائش ہے‘ تاہم اصل یہی ہے کہ رضاعت کا اعتبار صغر سنی‘ یعنی مدت رضاعت کے اندر ہی ہوگا۔ واللہ اعلم۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بنا رکھا تھا۔ وہ گھر میں بیٹوں کی طرح رہتا اور آتا جاتا رہتا تھا۔ جب یہ حکم اترا کہ متبنیٰ حقیقتاً بیٹا نہیں بنتا‘ نہ اس پر بیٹے کے احکام لاگو ہوتے ہیں تو اس سے پردہ فرض ہوگیا‘ اس لیے مندرجہ بالا صورت حال پید ہوئی اب بھی جہاں اس قسم کی ورت حال پیش آئے گی‘ وہاں حضرت عائشہؓ‘ امام ابن تیمیہ اور امام شوکافی وغیر ہم کے نزدیک اس پر عمل کی گنجائش ہے‘ تاہم اصل یہی ہے کہ رضاعت کا اعتبار صغر سنی‘ یعنی مدت رضاعت کے اندر ہی ہوگا۔ واللہ اعلم۔