كِتَابُ النِّكَاحِ الْقَدْرُ الَّذِي يُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي رَجُلٌ قَاعِدٌ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ فَقَالَ انْظُرْنَ مَا إِخْوَانُكُنَّ وَمَرَّةً أُخْرَى انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ مِنْ الرَّضَاعَةِ فَإِنَّ الرَّضَاعَةَ مِنْ الْمَجَاعَةِ
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوسکتی ہے؟
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بات آپ پر بہت شاق گزری اور میں نے آپ کے چہرئہ انور پر ناراضی کے اثرات محسوس کیے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھی طرح دیکھ لیا کرو کہ تمہارے رضاعی بھائی کون ہیں؟ کیونکہ رضات اس دور میں معتبر ہے جب دودھ ہی بھوک مٹاتا ہو۔‘‘
تشریح :
وہ رضاعت جو رشتے قائم کرتی ہے‘ اس دور میں ہوتی ہے جب بچہ دودھ ہی پر گزارا کرتا ہو اور دودھ ہی اس کی پوری خوراک ہو۔ اگر کوئی اور چیز کھاتا بھی ہو تو بہت کم‘ اصل خوارک دودھ ہی ہو۔ اور یہ دوسال پورے ہونے تک ہے۔ اگر کسی نے دو سال کی عمر کے بعد دودھ پیا تو کوئی رضاعی رشتہ ثابت نہ ہوگا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے آتا ہے کہ وہ احتیاطاً ڈھائی سال کی عمر تک رضاعت کے قائل ہیں مگر یہ قرآن مجید کی صریح نص {وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَھُنَّ حَوْلَیْنِ کاَمِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ} کے خلاف ہے‘ لہٰذا رضاعت دو سال کی عمر تک ہی معتبر ہے۔ البتہ بعض کبیر کے بھی قائل ہیں اور اس کے بھی کچھ دلائل ان کے پاس ہیں‘اس کی تفسیر ’’احسن البیان‘‘ کے ضمیمے ’’رضاعت کے ضروری مسائل‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
وہ رضاعت جو رشتے قائم کرتی ہے‘ اس دور میں ہوتی ہے جب بچہ دودھ ہی پر گزارا کرتا ہو اور دودھ ہی اس کی پوری خوراک ہو۔ اگر کوئی اور چیز کھاتا بھی ہو تو بہت کم‘ اصل خوارک دودھ ہی ہو۔ اور یہ دوسال پورے ہونے تک ہے۔ اگر کسی نے دو سال کی عمر کے بعد دودھ پیا تو کوئی رضاعی رشتہ ثابت نہ ہوگا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے آتا ہے کہ وہ احتیاطاً ڈھائی سال کی عمر تک رضاعت کے قائل ہیں مگر یہ قرآن مجید کی صریح نص {وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَھُنَّ حَوْلَیْنِ کاَمِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ} کے خلاف ہے‘ لہٰذا رضاعت دو سال کی عمر تک ہی معتبر ہے۔ البتہ بعض کبیر کے بھی قائل ہیں اور اس کے بھی کچھ دلائل ان کے پاس ہیں‘اس کی تفسیر ’’احسن البیان‘‘ کے ضمیمے ’’رضاعت کے ضروری مسائل‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔