سنن النسائي - حدیث 3306

كِتَابُ النِّكَاحِ تَحْرِيمُ بِنْتِ الْأَخِ مِنَ الرَّضَاعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ تَنَوَّقُ فِي قُرَيْشٍ وَتَدَعُنَا قَالَ وَعِنْدَكَ أَحَدٌ قُلْتُ نَعَمْ بِنْتُ حَمْزَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3306

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل رضاعی بھتیجی سے بھی نکاح حرام ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ آپ قریش (کے دیگر قبائل) میں تو فراخ دلی سے رشتے فرمارہے ہیں مگر ہمیں (بنو ہاشم کو) محروم رکھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرے پاس کوئی (رشتہ) ہے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں! حمزہ کی بیٹی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’وہ وہ میرے لیے حلال نہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔‘‘
تشریح : حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نسبی لحاظ سے تو رسول اللہﷺ کی چچا زاد بہن تھی اور اس سے آپ کا نکاح جائز تھا‘ اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے نکاح کی پیش کش کی لیکن چونکہ وہ آپ کی رضاعی بھتیجی بھی تھی کہ رسول اللہﷺ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ثویہبہ نے بھی دودھ پلایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ بھی آپ کے رضاعی بھائی تھے‘ لہٰذا ان کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں تھا کیونکہ رضاعی بھتیجی بھی نسبتی بھتیجی کی طرح ہوتی ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نسبی لحاظ سے تو رسول اللہﷺ کی چچا زاد بہن تھی اور اس سے آپ کا نکاح جائز تھا‘ اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے نکاح کی پیش کش کی لیکن چونکہ وہ آپ کی رضاعی بھتیجی بھی تھی کہ رسول اللہﷺ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ثویہبہ نے بھی دودھ پلایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ بھی آپ کے رضاعی بھائی تھے‘ لہٰذا ان کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں تھا کیونکہ رضاعی بھتیجی بھی نسبتی بھتیجی کی طرح ہوتی ہے۔