سنن النسائي - حدیث 3281

كِتَابُ النِّكَاحِ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْخُطْبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ تَشَهَّدَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا مَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشِدَ وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3281

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل کس قسم کا خطبہ مکروہ ہے؟ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبیﷺ کی موجودگی میں خطبہ دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا: جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا‘ وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔ او جوان دونوں کی نافرمانی کرے گا‘ وہ گمراہ ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تو برا خطیب ہے۔‘‘
تشریح : ’’تو برا خطیب ہے‘‘ آپ کا اشارہ اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر (یَعْصِھِمَاکی ھِمَا) ضمیر میں جمع کرنے کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس کی صراحت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اس طرح کہہ: ] وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ[ ’’جو اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کرے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الجمعۃ‘ حدیث: ۔۸۷۰) اسی طرح آپ کے ایک خطبے میں بعینہٖ یہی الفاظ ہیں: ] وَمَنْ یَعْصِھِمَا فَاِنَّہُ لاَیَضُرُّ اِلاَّ نَفْسَہُ[ (سنن ابی داود‘ الصلاۃ‘ حدیث: ۱۰۹۷) نیز قرآن مجید میں ہے: {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلاَئِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ} میں بھی ضمیر مشترک ہے‘ اس کے باوجود آپ نے یہاں تثنیہ کی ضمیر لانے پر اضہار ناراضی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وعظ تقریر کے موقع پر ابہام کی بجائے توضحیح وتفسیر کی ضرورت ہے۔ اس خطیب نے یہاں ابہام کا مظاہرہ کیا جسے آپ نے پسند فرمایا۔ ا س سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اختصار بھی اگرچہ ناجائز ہے لیکن عوام کے سامنے مختصر بات کرنے کی بجائے واضح الفاط میں بات کی جائے‘ اس میں کچھ طوالت ہو‘ تاکہ عوام کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں‘ مزید دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووی‘ حدیث: ۸۷۰) ’’تو برا خطیب ہے‘‘ آپ کا اشارہ اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر (یَعْصِھِمَاکی ھِمَا) ضمیر میں جمع کرنے کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس کی صراحت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اس طرح کہہ: ] وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ[ ’’جو اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کرے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الجمعۃ‘ حدیث: ۔۸۷۰) اسی طرح آپ کے ایک خطبے میں بعینہٖ یہی الفاظ ہیں: ] وَمَنْ یَعْصِھِمَا فَاِنَّہُ لاَیَضُرُّ اِلاَّ نَفْسَہُ[ (سنن ابی داود‘ الصلاۃ‘ حدیث: ۱۰۹۷) نیز قرآن مجید میں ہے: {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلاَئِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ} میں بھی ضمیر مشترک ہے‘ اس کے باوجود آپ نے یہاں تثنیہ کی ضمیر لانے پر اضہار ناراضی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وعظ تقریر کے موقع پر ابہام کی بجائے توضحیح وتفسیر کی ضرورت ہے۔ اس خطیب نے یہاں ابہام کا مظاہرہ کیا جسے آپ نے پسند فرمایا۔ ا س سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اختصار بھی اگرچہ ناجائز ہے لیکن عوام کے سامنے مختصر بات کرنے کی بجائے واضح الفاط میں بات کی جائے‘ اس میں کچھ طوالت ہو‘ تاکہ عوام کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں‘ مزید دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووی‘ حدیث: ۸۷۰)