كِتَابُ النِّكَاحِ الْبِكْرُ يُزَوِّجُهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ ضعيف شاذ أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ قَالَ حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَتَاةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ لِيَرْفَعَ بِي خَسِيسَتَهُ وَأَنَا كَارِهَةٌ قَالَتْ اجْلِسِي حَتَّى يَأْتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِيهَا فَدَعَاهُ فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَعْلَمَ أَلِلنِّسَاءِ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
کنواری لڑکی کا باپ اس کا نکاح کردے جبکہ وہ ناپسند کرتی ہو؟
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی اور کہا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ میری وجہ سے اس کا مربہ اونچا کرے۔ جبکہ میںاسے پسند نہں کرتی۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تو نبیﷺ کے تشریف لانے تک بیٹھ۔ اتنے میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے آئے تو اس نے پوری بات رسول اللہﷺ کو بتائی۔ آپ نے اس کے والد کو بلایا اور نکاح کا اختیار اس لڑکی کے سپرد دکردیا۔ وہ لڑکی کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے والد محترم کے کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں۔ میں تو یہ جاننا چاہتی تھی کہ عورتوں کو بھی اس (نکاح کے) معاملے میں کچھ اختیار ہے یا نہیں؟
تشریح :
(۱) اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کا باپ اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا اور لڑکی راضی نہ ہو تو اسے نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اگر خاوند رضا مند نہیں تو پھر فسخ نکاح کے لیے عدالت یا پنچایت کی طرف روجوع کرنا ہوگا۔ (۲) ’’اس کا مرتبہ انچاکرے‘‘ وہ معاشرے میں کم حیثیت ہوگا یا اچھے کردار کا مالک نہ ہوگا۔ یا مالی مرتبہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ وہ فقیر ہوگا جبکہ یہ لڑکی اور اس کا والد امیر ہوں گے۔ (۳) ’’برقرار رکھتی ہوں‘‘ معلوم ہوتا ہے لڑکی واقعتا عقل وفضل والی تھی۔ اپنا مقصد بھی ثابت کردیا اور با پ کی لاج بھی لی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔
(۱) اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کا باپ اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا اور لڑکی راضی نہ ہو تو اسے نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اگر خاوند رضا مند نہیں تو پھر فسخ نکاح کے لیے عدالت یا پنچایت کی طرف روجوع کرنا ہوگا۔ (۲) ’’اس کا مرتبہ انچاکرے‘‘ وہ معاشرے میں کم حیثیت ہوگا یا اچھے کردار کا مالک نہ ہوگا۔ یا مالی مرتبہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ وہ فقیر ہوگا جبکہ یہ لڑکی اور اس کا والد امیر ہوں گے۔ (۳) ’’برقرار رکھتی ہوں‘‘ معلوم ہوتا ہے لڑکی واقعتا عقل وفضل والی تھی۔ اپنا مقصد بھی ثابت کردیا اور با پ کی لاج بھی لی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔