سنن النسائي - حدیث 3256

كِتَابُ النِّكَاحِ إِنْكَاحُ الِابْنِ أُمَّهُ ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا بَعَثَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ فَلَمْ تَزَوَّجْهُ فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ فَقَالَتْ أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى وَأَنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَيْهَا فَقُلْ لَهَا أَمَّا قَوْلُكِ إِنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى فَسَأَدْعُو اللَّهَ لَكِ فَيُذْهِبُ غَيْرَتَكِ وَأَمَّا قَوْلُكِ إِنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ فَسَتُكْفَيْنَ صِبْيَانَكِ وَأَمَّا قَوْلُكِ أَنْ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِكِ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ يَكْرَهُ ذَلِكَ فَقَالَتْ لِابْنِهَا يَا عُمَرُ قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَوَّجَهُ مُخْتَصَرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3256

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل بیٹے کا اپنی ماں کا نکاح کروانا حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ جب میری عدت ختم ہوگئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس اپنے نکاح کا پیغام بھیجا۔ میں نے قبول نہ کیا‘ پھر رسول اللہﷺ نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو اپنے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا۔ میںنے کہا: رسول اللہﷺ سے عرض کریں کہ میں بہت غیرت والی عورت ہوں۔ (آپ کی دوسری بیویوں سے نباہ نہ ہوسکے گا۔) پھر میرے (سابقہ خاوند سے میرے) بچے بھی ہیں‘ نیز اس وقت میرے اولیاء میں سے کوئی یہاں موجود نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ باتیں ذکر کیں۔ آپ نے فرمایا: ’’دوبارہ جاؤ اور اسے کہو: تمہارا یہ کہنا کہ ’’میں غیرت والی عورت ہوں‘‘ تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تیری (بے جا) غیرت کو ختم کردے۔ اور تمہارا یہ کہنا کہ ’’میرے بچے ہیں‘‘ تو تجھے ان کی فکر نہیں کرنی چاہیے‘ انہیں خرچہ وغیرہ دیا جائے گا۔ باقی رہی تمہاری یہ بات کہ ’’میرے اولیاء میں سے کوئی خاص نہیں‘‘ تو سن لے کہ تیرے اولیاء میں سے کوئی شخص بھی خواہ وہ حاضر ہو یا غائب‘ اس کام کو ناپسند نہیں کرے گا۔‘‘ میں نے اپنے بیٹے سے کہا: اے عمر! اٹھو اور میرا رسول اللہﷺ سے نکاح کردو۔ چنانچہ اس نے آپ سے میرا نکاح کردیا۔ یہ حدیث مختصر بیان کی گئی ہے۔
تشریح : (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً حسن قراردیا ہے کہ صحیح مسلم میں اس کا شاہد موجود ہے۔ حالانکہ صحیح مسلم میں اس پوری حدیث کا شاہد موجود نہیں بلکہ بعض کا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل محقق کو یہاں سہو ہوگیا ہے‘ لہٰذا راجح اور درست بات یہ ہے کہ اس روایت کا‘ شاہد والے حصے کے علاوہ‘ باقی حصہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ابن عمر بن ابی سلمہ مجہول العین ہے۔ شیخ البانی‘ موسوعہ حدیثیہ کے محققین اور علامہ اتیوبیn نے اسی علت کی بنا پر ا س روایت کو ضعیف کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائیی: ۶۷/ ۱۸۶‘ والموسوعۃ الحدثیۃ‘ مسند الامام أحمد: ۴۴/ ۱۵۱،۲۹۵) البتہ یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ بیٹا ولی بن سکتا ہے۔ اور دیگر اولیاء موجود نہ ہوں تو نابالغ بیٹا جو سن تمیز کو پہنچ چکا ہو ولی بن سکتا ہے۔ (۲) ’’عدت ختم ہوگئی‘‘ یہ عالی مرتب خاتون حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی جو بدری صحابی تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو یہ بیوہ ہوگئیں۔ (۳) ’’بہت غیرت والی‘‘ عورت میں اپنے خاوند کے بارے میں غیرت ہونی چاہیے مگر اس قدر نہیں کہ شریعت کی خلاف ورزی ہو‘ مثلاً: سوکن برداشت نہ کرے۔ حضرت ام سلمہؓ کا مقصود یہی غیرت تھی کہ جو کہ بے جاہے۔ (۴) ’’ناپسند کرے گا‘‘ گویا نکاح کے لیے ولی کی دلی رضا مندی ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ خود نکاح کروائے یا موقع پر موجود ہویا زبانی اجازت دے‘ یعنی کم از کم اسے اطلاع اور اس کی رضا مندی شامل ہو۔ (۵) بیٹا ولی ہے مگر اس بات میں اختلاف ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں موجود ہونے کی صورت میں باپ مقدم ہوگا یا بیٹا؟ وراثت پر قیاس کریں تو بیٹا مقدم ہوگا۔ اگر مرتبے کا لحاظ رکھیں تو باپ مقدم ہوگا۔ واللہ اعلم۔ گویا دونوں میں سے کوئی بھی نکاح کروادے تو نکاح درست ہوگا‘ تاہم باپ کی موجودگی میں باپ کی رضا مندی ہی سے بیٹا ولایت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے‘ محض اپنی مرضی سے نہیں۔ (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً حسن قراردیا ہے کہ صحیح مسلم میں اس کا شاہد موجود ہے۔ حالانکہ صحیح مسلم میں اس پوری حدیث کا شاہد موجود نہیں بلکہ بعض کا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل محقق کو یہاں سہو ہوگیا ہے‘ لہٰذا راجح اور درست بات یہ ہے کہ اس روایت کا‘ شاہد والے حصے کے علاوہ‘ باقی حصہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ابن عمر بن ابی سلمہ مجہول العین ہے۔ شیخ البانی‘ موسوعہ حدیثیہ کے محققین اور علامہ اتیوبیn نے اسی علت کی بنا پر ا س روایت کو ضعیف کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائیی: ۶۷/ ۱۸۶‘ والموسوعۃ الحدثیۃ‘ مسند الامام أحمد: ۴۴/ ۱۵۱،۲۹۵) البتہ یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ بیٹا ولی بن سکتا ہے۔ اور دیگر اولیاء موجود نہ ہوں تو نابالغ بیٹا جو سن تمیز کو پہنچ چکا ہو ولی بن سکتا ہے۔ (۲) ’’عدت ختم ہوگئی‘‘ یہ عالی مرتب خاتون حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی جو بدری صحابی تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو یہ بیوہ ہوگئیں۔ (۳) ’’بہت غیرت والی‘‘ عورت میں اپنے خاوند کے بارے میں غیرت ہونی چاہیے مگر اس قدر نہیں کہ شریعت کی خلاف ورزی ہو‘ مثلاً: سوکن برداشت نہ کرے۔ حضرت ام سلمہؓ کا مقصود یہی غیرت تھی کہ جو کہ بے جاہے۔ (۴) ’’ناپسند کرے گا‘‘ گویا نکاح کے لیے ولی کی دلی رضا مندی ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ خود نکاح کروائے یا موقع پر موجود ہویا زبانی اجازت دے‘ یعنی کم از کم اسے اطلاع اور اس کی رضا مندی شامل ہو۔ (۵) بیٹا ولی ہے مگر اس بات میں اختلاف ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں موجود ہونے کی صورت میں باپ مقدم ہوگا یا بیٹا؟ وراثت پر قیاس کریں تو بیٹا مقدم ہوگا۔ اگر مرتبے کا لحاظ رکھیں تو باپ مقدم ہوگا۔ واللہ اعلم۔ گویا دونوں میں سے کوئی بھی نکاح کروادے تو نکاح درست ہوگا‘ تاہم باپ کی موجودگی میں باپ کی رضا مندی ہی سے بیٹا ولایت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے‘ محض اپنی مرضی سے نہیں۔