سنن النسائي - حدیث 3255

كِتَابُ النِّكَاحِ كَيْفَ الِاسْتِخَارَةُ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْمَوَالِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَعِينُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدِرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ قَالَ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3255

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل استخارہ کیسے کیا جائے؟ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ (کی دعا) سکھاتے تھے جس طرح ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے تھے: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو وہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل اداکرے‘ پھر یوں کہے: ]اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ… ثُمَّ أَرْضِنِیی بِہ[ ’’اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر کا طالب ہوں اور تیری قدرت کے ذریعے سے تجھ کا طالب ہوں اور تیری قدرت کے ذریعے سے تجھ کا مدد کا طلب گار ہوں۔ اور تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوالی ہوں (تیرے عظیم فضل کی وجہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں) کیونکہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘ میں نہیں جانتا۔ تو تمام غیبوں کو بخوبی جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین ودنیا اور انجام کار کے لحاظ سے… یا آپ نے فرمایا: دنیا وآخرت کے لحاظ سے… یا آپ نے فرمایا: دنیا وآخرت کے لحاظ سے… بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور اسے میرے لیے آسان فرمادے‘ پھر میرے لیے اس میں برکت فرما۔ اور اگر توجانتا ہے کہ یہ کام میرے دین ودنیا اور انجام کار کے لحاظ سے‘ یا دنیا وآخرت کے لحاظ سے‘ برا (نقصان دہ) ہے تو ا سکام کو مجھ سے دور فرما اور میرا رخ بھی اس سے پھیر دے اور جہاں بھی خیر ہو میرے لیے مقدر فرما۔ اور پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔‘‘ آپ نے فرمایا: وہ (دعا میں) اپنے کام کا بھی ذکر کرے۔‘‘
تشریح : (۱) استخارہ سے مراد اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنا ہے۔ اور ایسے کام میںہوتا ہے جس کا اچھا یا برا ہونا یقینی نہ ہو‘ جس میں تردد ہو‘ لہٰذا استخارہ کسی فرض‘ سنت یا حرام کام میں نہیں ہوسکتا کیونکہ فرض وسنت کا خیر ہونا اور حرام کا شروع ہونا پہلے سے واضح ہے۔ (۲) استخارہ کا مقصد تردد ختم کرنا ہے‘ لہٰذا جب تک تردد ختم اور شرح صدر نہ ہو اور کوئی ایک کام راجح معلوم نہ ہو‘ ا س وقت تک استخارہ جاری رکھنا چاہیے (۳) عام لوگ سمجھتے ہیں کہ استخارے کے بعد سونا چاہیے‘ نیند میں صحیح راستہ نظر آئے گا‘ مگر ایسا عمل کسی حدیث میں ذکر نہیں اور نہ کسی میں خوا ب کا ذکر ہے۔ اسی طرح چوری تلاش کرنے کے لیے استخارے کرنا قرآن وسنت سے خارج بات ہے۔ اس قسم کے کسی استخارے کو حقیقت سمجھنا بھی بے بنیاد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بہت سے معاملات میں تحقیقات کی ضرورت پڑی مگر آپ نے ایسے استخارے نہیں کیے بلکہ شواہد کی مدد سے تحقیق فرمائی‘ لہٰذا ایسے استخارے ڈھونگ اور بے بنیاد ہیں۔ ان سے جائز بدگمانیاں اور باہمی فساد پیدا ہوتا ہے۔ (۴) ’’دورکعت نفل‘‘ یعنی خالص نفل۔ فرض وسنن کے علاوہ۔ (۵) ’’اگر تو جانتا ہے‘‘ یعنی اگر تو اس کام کو میرے لیے بہتر جانتا ہے۔ گویا علم کے بارے میںکوئی شک نہیں۔ بلکہ خیروشر ہونے کے بارے میں سوال کا ایک اندازہ ہے۔ (۶) ’’اپنے کام کا بھی ذکر کرے‘‘ یعنی ھٰذا الْأَمَرَ کی جگہ اپنی اس حاجت اور کام کا نام لے جس کے بارے میں استخارہ کررہا ہے۔ (۷) آدمی کو تمام معاملات میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ (۸) اللہ رب العزت بندے کو جو انعام واکرام سے نوازتا ہے‘ یہ محض اس کا فعل ہے‘ کسی کا اللہ پر حق نہیں۔ اہل السنۃ کا یہی مذہب ہے۔ (۱) استخارہ سے مراد اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنا ہے۔ اور ایسے کام میںہوتا ہے جس کا اچھا یا برا ہونا یقینی نہ ہو‘ جس میں تردد ہو‘ لہٰذا استخارہ کسی فرض‘ سنت یا حرام کام میں نہیں ہوسکتا کیونکہ فرض وسنت کا خیر ہونا اور حرام کا شروع ہونا پہلے سے واضح ہے۔ (۲) استخارہ کا مقصد تردد ختم کرنا ہے‘ لہٰذا جب تک تردد ختم اور شرح صدر نہ ہو اور کوئی ایک کام راجح معلوم نہ ہو‘ ا س وقت تک استخارہ جاری رکھنا چاہیے (۳) عام لوگ سمجھتے ہیں کہ استخارے کے بعد سونا چاہیے‘ نیند میں صحیح راستہ نظر آئے گا‘ مگر ایسا عمل کسی حدیث میں ذکر نہیں اور نہ کسی میں خوا ب کا ذکر ہے۔ اسی طرح چوری تلاش کرنے کے لیے استخارے کرنا قرآن وسنت سے خارج بات ہے۔ اس قسم کے کسی استخارے کو حقیقت سمجھنا بھی بے بنیاد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بہت سے معاملات میں تحقیقات کی ضرورت پڑی مگر آپ نے ایسے استخارے نہیں کیے بلکہ شواہد کی مدد سے تحقیق فرمائی‘ لہٰذا ایسے استخارے ڈھونگ اور بے بنیاد ہیں۔ ان سے جائز بدگمانیاں اور باہمی فساد پیدا ہوتا ہے۔ (۴) ’’دورکعت نفل‘‘ یعنی خالص نفل۔ فرض وسنن کے علاوہ۔ (۵) ’’اگر تو جانتا ہے‘‘ یعنی اگر تو اس کام کو میرے لیے بہتر جانتا ہے۔ گویا علم کے بارے میںکوئی شک نہیں۔ بلکہ خیروشر ہونے کے بارے میں سوال کا ایک اندازہ ہے۔ (۶) ’’اپنے کام کا بھی ذکر کرے‘‘ یعنی ھٰذا الْأَمَرَ کی جگہ اپنی اس حاجت اور کام کا نام لے جس کے بارے میں استخارہ کررہا ہے۔ (۷) آدمی کو تمام معاملات میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ (۸) اللہ رب العزت بندے کو جو انعام واکرام سے نوازتا ہے‘ یہ محض اس کا فعل ہے‘ کسی کا اللہ پر حق نہیں۔ اہل السنۃ کا یہی مذہب ہے۔