سنن النسائي - حدیث 3253

كِتَابُ النِّكَاحِ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ إِذَا خُطِبَتْ وَاسْتِخَارَتُهَا رَبَّهَا صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ اذْكُرْهَا عَلَيَّ قَالَ زَيْدٌ فَانْطَلَقْتُ فَقُلْتُ يَا زَيْنَبُ أَبْشِرِي أَرْسَلَنِي إِلَيْكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُكِ فَقَالَتْ مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَبِّي فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِغَيْرِ أَمْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3253

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل جب عورت کو نکاح کا پیغام آئے تو وہ نماز پڑھ کر اپنے رب سے استخارہ کرے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت زینب (بنت حجشؓ) کی عدت ختم ہوئی تو رسول اللہﷺ نے (ان کے سابق خاوند) زید (بن حارثہ رضی اللہ عنہ ) سے فرمایا: ’’اسے میری طرف سے نکاح کا پیغام دو۔‘‘ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے جا کرکہا: زینب! خوش ہوجاؤ‘ مجھے رسول اللہﷺ نے تیرے پاس نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ وہ کہنے لگیں: میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گی حتیٰ کہ اپنے تب تعالیٰ سے مشورہ کرلوں۔ وہ اپنی نماز گاہ کی طرف اٹھیں اور (نماز استخارہ شروع کرلی۔) ادھر قرآن مجید (کا حکم) اتر آیا تو رسول اللہﷺ تشریف لائے اور ان کی اجازت کے بغیر (ان کے حجرے میں) داخل ہوگئے۔
تشریح : (۱) حضرت زینبؓ کا نکاح حضرت زید بن حارثہ سے ہوا تھا مگر ان بن رہی۔ آخر طلاق تک نوبت پہنچ گئی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے متبنیٰ (منہ بولے‘ لے پالک بیٹے) تھے۔ اس سے پہلے یہ حکم اتر چکا تھا کہ متبنیٰ بیٹا نہیں ہوتا‘ نہ وہ وارث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حکم کو عملاً نافذ فرمانا چاہتا تھا‘ اس لیے رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا کہ اگر زید طلاق دے دیں تو آپ زینب سے نکاح فرمالیں تاکہ عملاً واضح ہوجائے کہ متبنیٰ‘ بیٹا نہیں۔ اس کی مطلقہ بیوی سے نکاح ہوسکتا ہے۔ آپ لوگوں کی ملازت سے ڈرتے تھے‘ اس لیے کوشش فرمائی کہ زید طلاق نہ دے لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے؟ حضرت زید نے طلاق دے دی۔ عدت ختم ہوئی تو رسول اللہﷺ نے بہ امر الٰہی حضرت زینتؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آیت اتاردی کہ اب جبکہ عدت ختم ہوچکی ہے‘ ہم نے تمہارا نکاح اس سے کردیا۔ دونوں اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ خاوند بیوی بن گئے۔ (۲) ’’مشورہ کرلوں‘‘ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپﷺ کے عقد میں آنا پسند نہ فرماتی تھیں۔ وہ تو پہلے نکاح سے قبل بھی آپ سے نکاح کی خواہش مند تھیں۔ ان کا استخارہ تو پہلے نکاح کی ناکامی کا نفسیاتی اثر تھا یا اس بنا پر متردد تھیں کہ رسول اللہﷺ کے حقوق صحیح طور پر ادا کرسکیں گی یا نہیں؟ (۳) ’’قرآن مجید کا حکم اتر آیا‘‘ اور وہ آیت ہے جس میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کا نام نامی صراحتاً ذکر ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: {فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا} (الأحزاب ۳۳:۳۷) اس فضیلت میں کوئی دوسرے صحابی ان کے ساتھ شریک نہیں۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۴) استخارہ کرنا مستحب ہے اگرچہ کام ظاہراً بہتر ہی معلوم رہا ہو۔ (۱) حضرت زینبؓ کا نکاح حضرت زید بن حارثہ سے ہوا تھا مگر ان بن رہی۔ آخر طلاق تک نوبت پہنچ گئی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے متبنیٰ (منہ بولے‘ لے پالک بیٹے) تھے۔ اس سے پہلے یہ حکم اتر چکا تھا کہ متبنیٰ بیٹا نہیں ہوتا‘ نہ وہ وارث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حکم کو عملاً نافذ فرمانا چاہتا تھا‘ اس لیے رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا کہ اگر زید طلاق دے دیں تو آپ زینب سے نکاح فرمالیں تاکہ عملاً واضح ہوجائے کہ متبنیٰ‘ بیٹا نہیں۔ اس کی مطلقہ بیوی سے نکاح ہوسکتا ہے۔ آپ لوگوں کی ملازت سے ڈرتے تھے‘ اس لیے کوشش فرمائی کہ زید طلاق نہ دے لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے؟ حضرت زید نے طلاق دے دی۔ عدت ختم ہوئی تو رسول اللہﷺ نے بہ امر الٰہی حضرت زینتؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آیت اتاردی کہ اب جبکہ عدت ختم ہوچکی ہے‘ ہم نے تمہارا نکاح اس سے کردیا۔ دونوں اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ خاوند بیوی بن گئے۔ (۲) ’’مشورہ کرلوں‘‘ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپﷺ کے عقد میں آنا پسند نہ فرماتی تھیں۔ وہ تو پہلے نکاح سے قبل بھی آپ سے نکاح کی خواہش مند تھیں۔ ان کا استخارہ تو پہلے نکاح کی ناکامی کا نفسیاتی اثر تھا یا اس بنا پر متردد تھیں کہ رسول اللہﷺ کے حقوق صحیح طور پر ادا کرسکیں گی یا نہیں؟ (۳) ’’قرآن مجید کا حکم اتر آیا‘‘ اور وہ آیت ہے جس میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کا نام نامی صراحتاً ذکر ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: {فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا} (الأحزاب ۳۳:۳۷) اس فضیلت میں کوئی دوسرے صحابی ان کے ساتھ شریک نہیں۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۴) استخارہ کرنا مستحب ہے اگرچہ کام ظاہراً بہتر ہی معلوم رہا ہو۔