سنن النسائي - حدیث 3250

كِتَابُ النِّكَاحِ : عَرْضِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ عَلَى مَنْ يَرْضَى صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ قَالَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسٍ يَعْنِي ابْنَ حُذَافَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ فَلَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ فَقُلْتُ إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ فَقَالَ سَأَنْظُرُ فِي ذَلِكَ فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ فَلَقِيتُهُ فَقَالَ مَا أُرِيدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا قَالَ عُمَرُ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ فَخَطَبَهَا إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ شَيْئًا إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهَا وَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا نَكَحْتُهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3250

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل ٓآدمی کا کسی نیک شحص کو اپنی بیٹی سے نکاح کی پیش کش کرنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (میری بیٹی) حفصہ بنت عمرؓ حنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے بیوہ ہوگئیں۔ یہ حنیس نبیﷺ کے صحابہ میں سے تھے۔ بدر میں بھی حاضر ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں فوت ہوگئے۔ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا اور انہیں حفصہ سے نکاح کی پیش کش کی۔ میں نے کہا: اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کردوں؟ وہ کہنے لگے: میں اس بارے میں غوروفکر کروں گا۔ چند دن گزرے تو میں پھر انہیں ملا تو وہ کہنے لگے: آج کل میرا نکاح کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا: اگر آپ پسند فرمائیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کردوں؟ انہوں نے مجھے کچھ جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر حضرت عثمان سے بڑھ کر ناراضی تھی۔ چند دن بعد رسول اللہﷺ نے مجھے ان کے نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ میں نے (بصدخوشی وخوبی) آپ سے حفصہ کا نکاح کردیا۔ بعد میں مجھے اور ابوبکر ملے اور کہنے لگے: شاید آپ اس وقت مجھے سے ناراض ہوگئے ہوں گے جب آپ نے مجھے حفصہ کے نکاح کی پیش کش کی تھی اور میں نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ میں نے کہا: ہاں۔ وہ کہنے لگے کہ جب آپ نے مجھے پیش کش کی تھی تو آپ کو جواب دینے سے مجھے کوئی چیز مانع نہیں تھی مگر یہ کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ان (حفصہ) کا تذکرہ فرماتے سنا تھا۔ اور میں رسول اللہﷺ کا راز فاش نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں‘ اگر آپﷺ انہیں پیغام نہ بھیجتے تو میں ان سے نکاح کرلیتا۔
تشریح : (۱) ’’رسول اللہﷺ کا راز‘‘ جواب دینے کی صورت میں راز فاش ہونے کی نوبت آسکتی تھی۔ ادھر رسول اللہﷺ نے کوئی قطعی فیصلہ نہ فرمایا تھا۔ ممکن تھا آپ کی رائے بدل جاتی۔ ایسی صورت حال میں افشائے راز فریقین کے درمیان کدورت کا ذریعہ بن سکتا تھا‘ اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خلفائے راشدین ایک دوسرے کے بہت زیادہ خیر خواہ‘ محبت اور پیار کرنے والے تھے‘ ان میں کسی قسم کی باہمی منافرت‘ چپقلش اور دشمنی نعوذ باللہ نہ تھی‘ ورنہ دشمن کو اپنی بیٹی کوئی نہیں دیتا۔ (۳) اگر ولی کو پتہ ہو کہ میرے منتحب کردہ رشتے کو ناپسند نہیں کیا جاے گا تو وہ اپنی زیرولایت لڑکی سے مشورہ کیے بغیر اس کا نکاح کرسکتا ہے‘ خواہ وہ کنواری ہو یا شوہر دیدہ۔ (۴) ثیبہ بھی ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کرسکتی بلکہ ولی کی اجازت اس کے لیے بھی ضروری ہے۔ (۱) ’’رسول اللہﷺ کا راز‘‘ جواب دینے کی صورت میں راز فاش ہونے کی نوبت آسکتی تھی۔ ادھر رسول اللہﷺ نے کوئی قطعی فیصلہ نہ فرمایا تھا۔ ممکن تھا آپ کی رائے بدل جاتی۔ ایسی صورت حال میں افشائے راز فریقین کے درمیان کدورت کا ذریعہ بن سکتا تھا‘ اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خلفائے راشدین ایک دوسرے کے بہت زیادہ خیر خواہ‘ محبت اور پیار کرنے والے تھے‘ ان میں کسی قسم کی باہمی منافرت‘ چپقلش اور دشمنی نعوذ باللہ نہ تھی‘ ورنہ دشمن کو اپنی بیٹی کوئی نہیں دیتا۔ (۳) اگر ولی کو پتہ ہو کہ میرے منتحب کردہ رشتے کو ناپسند نہیں کیا جاے گا تو وہ اپنی زیرولایت لڑکی سے مشورہ کیے بغیر اس کا نکاح کرسکتا ہے‘ خواہ وہ کنواری ہو یا شوہر دیدہ۔ (۴) ثیبہ بھی ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کرسکتی بلکہ ولی کی اجازت اس کے لیے بھی ضروری ہے۔