سنن النسائي - حدیث 3247

كِتَابُ النِّكَاحِ إِذَا اسْتَشَارَتِ الْمَرْأَةُ رَجُلًا فِيمَنْ يَخْطُبُهَا هَلْ يُخْبِرُهَا بِمَا يَعْلَمُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي فَاعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَكَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3247

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل جب کوئی عورت کسی سے پیغام بھیجنے والے کے بارے میں مشورہ کرے تو کیا وہ شخص اس کی معلوم خوبیاں اور عیوب بتلا سکتا ہے؟ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے کہ (میرے خاوند) ابوعمر بن حفصؓ نے مجھے پکی طلاق دے گی جبکہ وہ میرے پاس موجود نہ تھے۔ تو ان کے وکیل نے میرے پاس کچھ جو وغیرہ بھیجے۔ میں نے وہ پسند نہ کیے۔ وکیل کہنے لگا: اللہ کی قسم! تیرے لیے تو ہمارے ذمے کچھ بنتا ہی نہیں۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس گئی اور ساری صورت حال گوش گزارکی۔ آپ نے فرمایا: ’’تیرے لیے خرچہ (خاوند کے ذمے) نہیں بنتا۔‘‘ نیز آپ نے مجھے حضرت ام شریک ؓ کے گھر عدت گزارنے کا مشورہ دیا۔ پھر آپ (خود ہی) فرمانے لگے: ’’اس عورت کے پاس میرے (مہمان) صحابہ آتے جاتے رہتے ہیں‘ لہٰذا تو ابن مکتوم کے ہاں عدت گزار لے کیونکہ وہ نابینا شخص ہے۔ تو وہاں اپنے (فالتو) کپڑے اتار سکتی ہے۔ پھر جب تیری عدت پوری ہوجائے تو مجھے اطلاع کرنا۔‘‘ جب میری عدت پوری ہوگئی تو میں نے آپ کو بتایا کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور جہمؓ نے مجھے شادی کا پیغام بھیجا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ابو جہم تو ہر وقت کندھے پر لاٹھی اٹھائے رہتا ہے‘کبھی نہیں اتارتا اور رہا معاویہ! تو فقیر ہے۔ اس کے پاس زیادہ مال نہیں۔ لیکن تو اسامہ سے نکاح کرلے۔‘‘ میں نے نا پسند کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اسامہ سے نکاح کرلے۔‘‘ چنانچہ میں نے ان سے نکاح کرلیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں بھلائی اور برکت ڈالی حتیٰ کہ مجھ پر رشک کیا گیا۔
تشریح : (۱)مشورہ طلب کرنے کی صورت میں متعلقہ شخص کے اچھے اور برے اوصاف بیان کیے جاسکتے ہیں۔ یہ چغلی یا غیبت کے ذیل میں نہیں آتا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘ نیز چونکہ نکاح ایک اہم مسئلہ ہے جس پر باقی زندگی کا مدار ہے‘ لہٰذا خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورہ دینا اور صحیح معلومات سے آگاہ کرنا فرض ہے (۲) ’’رشک کیا گیا‘‘ کہ خاوند ملے تو ایسا۔ حضرت اسامہ بہت حسن خلق کے حامل تھے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۱)مشورہ طلب کرنے کی صورت میں متعلقہ شخص کے اچھے اور برے اوصاف بیان کیے جاسکتے ہیں۔ یہ چغلی یا غیبت کے ذیل میں نہیں آتا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘ نیز چونکہ نکاح ایک اہم مسئلہ ہے جس پر باقی زندگی کا مدار ہے‘ لہٰذا خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورہ دینا اور صحیح معلومات سے آگاہ کرنا فرض ہے (۲) ’’رشک کیا گیا‘‘ کہ خاوند ملے تو ایسا۔ حضرت اسامہ بہت حسن خلق کے حامل تھے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔