سنن النسائي - حدیث 3246

كِتَابُ النِّكَاحِ خِطْبَةُ الرَّجُلِ إِذَا تَرَكَ الْخَاطِبُ أَوْ أَذِنَ لَهُ صحيح الإسناد أَخْبَرَنِي حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ أَنَّهُمَا سَأَلَا فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ عَنْ أَمْرِهَا فَقَالَتْ طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا فَكَانَ يَرْزُقُنِي طَعَامًا فِيهِ شَيْءٌ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَئِنْ كَانَتْ لِي النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لَأَطْلُبَنَّهَا وَلَا أَقْبَلُ هَذَا فَقَالَ الْوَكِيلُ لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ قَالَتْ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ قَالَتْ وَكَانَ يَأْتِيهَا أَصْحَابُهُ ثُمَّ قَالَ اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ أَعْمَى فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ آذَنْتُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ خَطَبَكِ فَقُلْتُ مُعَاوِيَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَإِنَّهُ غُلَامٌ مِنْ غِلْمَانِ قُرَيْشٍ لَا شَيْءَ لَهُ وَأَمَّا الْآخَرُ فَإِنَّهُ صَاحِبُ شَرٍّ لَا خَيْرَ فِيهِ وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ قَالَتْ فَكَرِهْتُهُ فَقَالَ لَهَا ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَكَحَتْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3246

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل جب پہلے پیغٓام والا ارادہ ترک کردے یا اجازت دے دے تو کوئی دوسرا پیغام بھیج سکتا ہے ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے روایت ہے کہ ان دونوں نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے ان کے معاملے کے متعلق پوچھا تو حضرت فاطمہ بنت قیسؓ نے فرمایا: مجھے میرے خاوند نے تین طلاقیں دے دیں۔ اور مجھے کھانے پینے کے لیے ناکافی خرچہ بھیجا۔ میں نے کہا: اگر تو رہائش اور کھانے پینے کا خرچہ میرا حق بنتا ہے تو اللہ کی قسم! میں پورا پورا خرچہ طلب کروںگی‘ یہ معمولی سا غلہ نہیں لوں گی۔ (میرے خاوند کے) وکیل نے کہا: تیرے لیے (قانونی طور پر) رہائش یا نفقہ (خرچہ) نہیں ہے۔ میں نبیﷺ کے پاس گئی اور آپ سے یہ بات ذکر کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تیرے لیے (دوران عدت میں) رہائش اور خرچہ نہیں ہے۔ تو فلاں عورت (ام شریک) کے ہاں عدت گزارلے۔‘‘ جبکہ اس عورت کے پاس رسول اللہﷺ کے صحابہ اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تو ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزار۔ وہ نابینا شخص ہے۔ پھر جب تیری عدت پوری ہوجائے تو مجھے بتلانا۔‘‘ جب میری عدت ختم ہوگئی تو میں نے آپ کو بتلایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تجھے شادی کا پیغام کس کس نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ایک تو معاویہ نے اور ایک قریشی شخص نے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’معاویہ تو قریش کے نوجوانوں میں سے ایک نوجوان ہے۔ اس کے پاس کوئی مال وغیرہ نہیں۔ اور دوسرا شخص (ابو جہم) صاحب شر (بیویوں کی بہت زیادہ پیٹنے والا) ہے‘ اس میں بھلا ئی نہیں ہے۔ لیکن تو اسامہ بن زید سے نکاح کرلے۔‘‘ مجھے یہ بات اچھی نہ لگی لیکن آپ نے تین دفعہ یہی کہا تو میں نے حضرت اسامہؓ سے نکاح کرلیا۔
تشریح : 1) ۔۔تین طلاق دے دیں‘‘ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں لیکن حقیقت میں ایسے نہیں‘ بلکہ تین طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی تھیں جیسا کہ روایت میںاس کی وضاحت ہے۔ یہ حدیث پیچھے (۳۲۲۴کے تحت) گزر چکی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ انہوں نے جو طلاق باقی رہ گئی تھی وہ دی‘ یعنی تیسری طلاق‘ جبکہ اس سے پہلے دو طلاقیں دے چکے تھے۔ (2) پچھلی احادیث میں پیغام پر پیغام سے روکا گیا ہے۔ اس روایت میں رسول اللہﷺ نے معاویہ اور ابوجہم کے پیغامات نکاح پر اسامہ سے نکاح کا پیغام ارشاد فرمایا۔ دراصل وہ آپ سے مشورہ لینے آتی تھیں۔ آپ مخلصانہ مشورہ ارشاد فرمایا۔ حضرت اسامہؓ سے ان کا نکاح بابرکت ثابت ہوا۔ (3) آپ حضرت فاطمہ بنت قیس کی طبیعت سے واقف تھے کہ یہ کم مال والے کے ساتھ گزارہ نہ کرسکے گی اس لیے آپ نے معاویہ کے ساتھ نکاح سے روک دیا۔ ورنہ نکاح میںمال کی بجائے خلق اور دین دیکھا جاتا ہے۔ (4) ’’صاحب شر ہے‘‘ یہاںشر سے مراد شرارتی نہیں بلکہ اس کی وضاحت بعض دوسری روایات میں آتی ہے کہ وہ سخت ہے‘ مارتا پیٹتا ہے‘ اس کے ساتھ بھی تیرا گزارہ نہ ہوگا۔ (5) ’’اچھی نہ لگی‘‘ کیونکہ حضرت اسامہؓ آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ بھی آزاد شدہ لونڈی تھیں۔ 1) ۔۔تین طلاق دے دیں‘‘ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں لیکن حقیقت میں ایسے نہیں‘ بلکہ تین طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی تھیں جیسا کہ روایت میںاس کی وضاحت ہے۔ یہ حدیث پیچھے (۳۲۲۴کے تحت) گزر چکی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ انہوں نے جو طلاق باقی رہ گئی تھی وہ دی‘ یعنی تیسری طلاق‘ جبکہ اس سے پہلے دو طلاقیں دے چکے تھے۔ (2) پچھلی احادیث میں پیغام پر پیغام سے روکا گیا ہے۔ اس روایت میں رسول اللہﷺ نے معاویہ اور ابوجہم کے پیغامات نکاح پر اسامہ سے نکاح کا پیغام ارشاد فرمایا۔ دراصل وہ آپ سے مشورہ لینے آتی تھیں۔ آپ مخلصانہ مشورہ ارشاد فرمایا۔ حضرت اسامہؓ سے ان کا نکاح بابرکت ثابت ہوا۔ (3) آپ حضرت فاطمہ بنت قیس کی طبیعت سے واقف تھے کہ یہ کم مال والے کے ساتھ گزارہ نہ کرسکے گی اس لیے آپ نے معاویہ کے ساتھ نکاح سے روک دیا۔ ورنہ نکاح میںمال کی بجائے خلق اور دین دیکھا جاتا ہے۔ (4) ’’صاحب شر ہے‘‘ یہاںشر سے مراد شرارتی نہیں بلکہ اس کی وضاحت بعض دوسری روایات میں آتی ہے کہ وہ سخت ہے‘ مارتا پیٹتا ہے‘ اس کے ساتھ بھی تیرا گزارہ نہ ہوگا۔ (5) ’’اچھی نہ لگی‘‘ کیونکہ حضرت اسامہؓ آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ بھی آزاد شدہ لونڈی تھیں۔